دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
{باب۱۹ } دعوت کی دوقسمیں ،دعوت خاصہ، دعوت عامہ دعوت کے بھی مختلف درجے ہیں ، چنانچہ ایک درجہ یہ ہے ۔ ’’یَااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا‘‘۔ اے ایمان والوں ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو دوزخ سے بچائو ، اس درجہ کا حاصل اپنے خاص متعلقین کی اصلاح ہے ۔ اور دوسرا درجہ یہ ہے:’’وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلٰی الْخَیْرِ وَیَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ‘‘۔ کہ تم میں سے اجماعت ایسی ہونا چاہئے جس کا کام صرف یہی ہو کہ لوگوں کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرے۔ اس درجہ کا حاصل عام تبلیغ ہے ۔ اور ایک جگہ ہے :’’وَتَوَاصَوْ بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْ بِالصَّبْرِ‘‘ اس میں بھی اہل وعیال کی تخصیص نہیں ۔(ضرورت تبلیغ:ص ۳۰۲) جو جس درجہ کا اہل ہو ویسا ہی اہتمام کرے ۔یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص سب درجوں کا اہتمام کرے ۔اس کا پتہ اس آیت سے چلتا ہے ۔ ’’وَلْتَکُمْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ ‘‘الآیہ،یعنی تمہارے اندر ایسی جماعت ہونا چاہئے جو دعوت الی الخیر کرے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک خاص جماعت کا کام ہے ساری امت کا کام نہیں ہے ۔ اور دعوت الی الخیر اور دعوت الی اللہ کے ایک ہی معنی ہیں سو اس میں تو صرف ایک خاص