دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
۔یا فلاں شخص نے حقوق دبار کھے ہیں ذرا اس کے متعلق فرمادیجئے گا ۔مگر بحمد اللہ میں کبھی ان فرمائشوں پر عمل نہیں کرتا ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں ۔کہ اصلاح کا یہ طرز مفید ہونے کے بجائے مضر ہے ۔ سننے والے قرائن (انداز) سے سمجھ جاتے ہیں کہ فلاں کو کہا جارہا ہے ۔اور اس سے عام مجمع میں اس کو شرمندگی ہوتی ہے ۔جس کا نتیجہ بغض وعداوت ہے اور اس کے سبب سے اپنے فعل (غلط کام) کی اور زیادہ پچ (ضد) ہوجاتی ہے۔ (نسیان النفس:ص ۱۱۷)اصلاح وتبلیغ کا عمدہ طریقہ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کی اصلاح کرنا منظور ہے تو پہلے ان سے میل جول پیدا کیا جائے جب خوب بے تکلفی ہوجائے ۔تو وقتاً فوقتاً نرمی سے ان کو سمجھایا جائے اور خدا تعالیٰ سے ان کے لئے دعاء کی جائے ۔اور جو تدبیر یں مفید ثابت ہوں ان کو عمل میں لایا جائے ۔غرض (خیر خواہی کا ) وہ برتائو کیا جائے جو اپنی اولاد سے کیا جاتا ہے ۔کہ اگر ان کی شکایت کسی دوسرے سے کی جائے تو اپنے دوستوں سے کی جائے گی جو کہ ان کی اصلاح کرسکیں ۔ یا بزرگوں سے کی جائے گی کہ وہ اس کے لئے دعا کریں اور جن سے اصلاح ودرستگی کی امید ہوگی انہی سے کہا جائے گا اور جہاں یہ بات نہ ہوگی ۔وہاں زبان پر بھی اولاد کے عیوب کو نہ لایا جائے گا ۔ یہ مثال بحمد اللہ ایسی عمدہ ہے کہ اس کے پیش نظر رکھنے کے بعد اصلاح کے تمام آداب معلوم ہوجائیں گے ۔یعنی جس مسلمان کی اصلاح کرنا چاہو، یہ غور کرلو ، کہ اگر یہ حالت ہماری اولاد کی ہوتی ، تو ہم اس کے ساتھ کیا برتائو کرتے ۔بس جو برتائو اس کے ساتھ طبیعت تجویز کرے وہی برتائو اس غیر کے ساتھ بھی کرو… حاصل یہ کہ جب کسی کے عیوب پر مطلع ہوتو اس کو اطلاع کردو اور اگر یہ کار گر نہ ہوتو خدا تعالیٰ سے دعاء کرو ۔ (نسیان النفس ملحقہ آداب انسانیت:ص ۱۱۷،۱۱۸)