دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ثمرہ(کامیابی) کے لئے دعاء کی بھی اجازت ہے ۔مگر مبالغہ کے ساتھ اس کے پیچھے مت پڑو، کہ ہوہی جائے۔ اور نہ ہوتو رنج کرکے بیٹھ جائو چنانچہ :’’فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدَّیٰاور لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرْ‘‘ میں اس کی تعلیم ہے کہ آپ تبلیغ کرنے کے زیادہ پیچھے نہ پڑئیے ۔ وہ قبول کریں یا نہ کریں ۔اس سے بحث نہ ہونا چاہئے آپ اس کے درپے نہ ہوں ۔ آپ کا کام رضاء حق حاصل کرنا ہے نہ کہ ثمرات ۔نہ وہ اختیاری ہیں اور نہ ان کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ اسی لئے ہم کو کسی کو مسلمان بنانے کا حکم نہیں ۔ کیوں کہ وہ دوسرے کے اختیار میں ہے اور ظاہر ہے کہ قادر بقدر ت الغیر(یعنی دوسرے کی قدرت سے خود کوئی)کیسے قادر ہوسکتا ہے۔ اختیار تودوسروں کا اور اس سے کام لیں آپ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس لئے ایسے امور کے پیچھے پڑنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے ۔(آداب التبلیغ:ص ۱۳۱)نصیحت میں کسی کے پیچھے پڑجانے کی خرابی ایک تجربہ کی بات عرض کرتا ہوں جو نہایت نافع اورمؤثر ہے ۔و ہ یہ کہ کسی کے درپے نہ ہونا چاہئے (یعنی پیچھے نہ پڑناچاہئے ) اس میں کئی خرابیاں ہیں ۔ (۱) ایک تویہ کہ لوگوں کو غرض کا شبہ ہوجاتا ہے ۔ (۲) دوسرے یہ کہ اس صورت میں فریق بندی ہوجاتی ہے ۔پھر کوئی کام نہیں ہوپاتا (۳) تیسرے یہ کہ شروع میں تونیت کے اندر خلوص ہوتا ہے، پھر جب بات کی پچ ہوجاتی ہے تو نفسانیت بھی آجاتی ہے ۔پھر ثواب بھی نہیں ہوتا اس پر لوگوں کی نظر کم ہوجاتی ہے ۔یہ ہے باریک بات ، اور حکمِ خداوندی بھی ہے ۔حق تعالیٰ فرماتے ہیں :’’اَمَّامِنِ اسْتَغْنٰی فَانْتَ لَہٗ تَصَدّیٰ، وَمَاعَلَیْکَ اَن لَّا یَزَّکّٰی‘‘۔ ترجمہ: جو شخص دین سے بے پروائی کرتا ہے آپ اس کی توفکر میں پڑتے ہیں حالانکہ آپ پر کوئی الزام نہیں کہ وہ نہ سنور ے، استغناء کے وصف سے آپ کو اس سے تنفر دلانا ہے ۔ (الافاضات الیومیہ:ص ۲۹۷،۸،۲؍ہشتم جزء:۲)