دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ایک غلط استدلال اور اس کا جواب بعض لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں :’’اَتَأمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ ‘‘(کیا تم دوسرے کو نیکی کا حکم کرتے ہو، اور اپنے کو بھولے ہوئے ہو) وہ اس سے یہی سمجھے کہ اگر اپنی اصلاح نہ کرے تو دوسروں کی بھی اصلاح نہ کرے، کیو نکہ ’’اَتَأمُرُوْنَ‘‘ میں ہمزہ انکار کیلئے داخل ہوا ہے تو ’’اَمْربِالْبِرِّ ‘‘(یعنی اچھی بات کا حکم کرنا ) منکر ہوا ۔یعنی جس حالت میں تم اپنے نفسوں کو بھولے ہوئے ہو، لوگوں کو امر بالبر (اچھی بات کا حکم)کیوں کرتے ہو۔ مگر یہ محض غلط ہے بلکہ ہمزہ مجموعہ پر داخل ہوا ہے ،اور انکا رمجموعہ کے دوسرے جزاء کے اعتبار سے ہے کہ اپنے کو اصلاح میں بھلانا نہیں چاہئے ۔(ضرورت تبلیغ:ص ۲۹۹) اس کے معنی یہ نہیں کہ ’’ناسی نفس‘‘ یعنی بدعمل کو وعظ( تبلیغ) کی ممانعت کی گئی ہے۔ بلکہ واعظ کو نسیان نفس (یعنی اپنے نفس کو بھولنے )کی ممانعت کی گئی ہے کہ وعظ توکہو، مگر بدعمل مت بنو ، بلکہ جو نصیحت دوسروں کو کرتے ہووہ اپنے نفس کو بھی کرو، اور اس کو بھی عمل کرائو ۔ (التبلیغ:ص ۴۰،۲۰)ایک اور غلط استدلال اور اس کا جواب اب ایک دوسری آیت کا مطلب بھی سنئے جس سے ان لوگوں نے اس پر استدلال کیا ہے کہ بے عمل کو وعظ ونصیحت نہ کرناچاہئے ، وہ یہ ہے : ’’لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَالَا تَفْعَلُوْنَ ‘‘۔ ترجمہ: کہ تم وہ باتیں کہتے ہو جو کرتے نہیں ، خدا کے نزدیک نہایت مبغوض ہے کہ جو کام خود نہ کرو ،اسے کہو۔