دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
{باب۴ } حفاظت دین کا مطلب خدا اس دین کا محافظ ہے مگر محافظت کا مطلب یہ نہیں کہ تم اس کو ضائع کروتب بھی محفوظ رہے گا ۔بلکہ ’’اِنَّا لَہ لَحَافِظُونَ‘‘ (ہم دین کی حفاظت کرنے والے ہیں ) کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم اس کا دھیان رکھو، اس پر عمل کرو اورحفاظت کرو ، اللہ تعالیٰ اس کو قائم رکھیں گے، ضائع نہ ہونے دیں گے ۔ اس کے نظائر دیکھئے ، مثلاً کھیتی کرنا ہے توکیا اس میں بندہ کو کچھ کرنا نہیں پڑتا، کہ نہ زمین کھودتا ہو، نہ دانا ڈالتا ہو، نہ حفاظت کرتا ہو، نہیں ، بلکہ بندہ کو بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے ، ہل چلانا، زمین کھودنا، پانی سینچنا ، پہرہ دینا، وغیرہ وغیرہ، اگر یہ کہو کہ پھر اللہ میاں کو کیا کرنا پڑا، اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے مانا، تم نے سب کچھ کیا ، زمین کو تیار کیا، پانی سینچا دانہ بھی ڈالا مگر کیا دانہ سے بالی نکالنا تمہاری قدرت میں تھا؟ ہر گز نہیں اسی کو فرماتے ہیں :’’اَفَرَیْتُمْ مَاتَحْرُثُوْنَ أاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ ‘‘ کہ تم جو کھیتی کرتے ہو کیا تم اس کو زمین سے نکالتے ہو یا ہم؟ زمین سے نکالنا تمہارا کام نہیں ہے وہ خدا کا کام ہے ، تو جیسے کھیتی کرنے میں ، نہ سب کام خدا کے حوالے کرتے ہو، اور نہ کوشش چھوڑ تے ہو بلکہ اس میں تمہاری کوشش ہوتی ہے ، باقی کامیاب ہونا نہ ہونا خدا کے اختیار میں ہے، اسی طرح دین کی حفاظت کی بھی یہی صورت ہے کہ ہم کو حفاظت کا حکم کیا ۔پس ہم کو چاہئے کہ اس کی حفاظت کریں ، پھر اللہ تعالیٰ اس کو پورا فرمادیں گے، کیوں کہ وعدہ کیا ہے :’’اِنَّالَہٗ لَحَافِظُوْنَ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اس حفاظت کی تکمیل کردیں گے ۔ (الاتمام لنعمۃ الاسلام:ص ۲۶)