دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
سے معلوم ہوتا ہے کہ نیت نہ کرنے سے اعمال کا ثواب نہیں ملتا۔ گوعمل متحقق ہوجائے ۔ (آداب التبلیغ:ص ۹۸،۹۹)تبلیغ میں غلو ،تعلیم کو چھوڑ کر تبلیغ میں جانے کی ممانعت ہم لوگوں میں کام کے وقت غلو ہوجاتا ہے کہ بس جدھر رخ کرتے ہیں ، سب ایک ہی طرف ٹوٹ پڑتے ہیں ، اس لئے تبلیغ کی ضرورت بیان کرتے ہوئے مجھے اندیشہ ہے کہ کبھی ایسا نہ ہو کہ مدرسین وطلبہ پڑھنا پڑھانا چھوڑدیں بلکہ اس کو اپنے بزرگوں سے پوچھوکہ ہم کو کیا کرنا چاہئے ۔ آیا سبق چھوڑ کر چلے جائیں یا پڑھتے رہیں ۔ یا ایک وہاں سے چلا آئے ۔ پھر دوسرا جائے ۔ غرض اپنی رائے سے کچھ نہ کرو ۔ورنہ بجائے اصلاح کے فساد ہوگا۔ میں نے اس کو قصداً عرض کیا ہے کیونکہ میں یہ رنگ دیکھ رہا ہوں کہ آج کل وہ طلبہ بھی جو علم سے فارغ نہیں ہوئے ۔تبلیغ میں مشغول ہونا چاہتے ہیں ۔میرے نزدیک ان کے لئے تکمیل علم پہلے ضروری ہے کیوں کہ اگر یہ پڑھنا پڑھانا نہ ہوتو تصنیف وتبلیغ وغیرہ بھی سب بیکار ہے کیوں کہ ناقص( جاہل) کی تبلیغ وغیرہ کا کچھ اعتبار نہیں (علم نہ ہونے کی وجہ سے خود بھی گمراہ ہوگا دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا ) بلکہ اس طرح توچند روز میں علم بالکل ناپید ہوجائے گا تو تعلیم وتعلم (درس وتدریس پڑھنا پڑھانا) بھی تبلیغ کی ایک فرد ہے۔ (آداب التبلیغ:ص ۱۰۵)تبلیغ کی ایک قسم مقصود کا مقصود (یعنی ذریعہ وواسطہ) مقصود ہوا کرتا ہے ۔چنانچہ فقہی مسئلہ ہے ’’مُقَدَّمَۃُ الْوَاجِبِ وَاجِبٌ‘‘ (واجب کا ذریعہ بھی واجب ہوتا ہے ) تو اس وقت جن چیزوں کا تبلیغ کے لئے موقوف الیہ ہونا ثابت ہوجائے (یعنی تبلیغ کرنا اس پر موقوف ہو ) مثلاً وہ امور جن کو اہل بصیرت