دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
شریعت نے اس قلیل مقدار کو لقطہ نہیں بنایا ۔اور یہ شخص اس کو لقطہ بناتا ہے ۔گویا اپنی طرف سے نئی شریعت ایجاد کرتا ہے ۔ اگر بیل کے پیر کو مٹی لگ جائے تو یہ کوئی قیمتی چیز نہیں ۔چنانچہ اتنی مٹی کی بیع جائز نہیں ۔ اور جب قیمتی نہیں تو اس کا ضمان بھی نہیں ۔پھر اس کے کھیت میں ملنے سے شبہ کیوں ہوگیا ۔ اور اگر بالفرض ضمان بھی لازم ہوتا ۔تو اس کا ضمان ادا کردینا کافی تھا۔ تم نے اپنے کھیت سے اُتنی مٹی دوسرے کے کھیت میں ڈال دی ہوتی ؟ اس سے کھیت کا غلہ اور پیداوار کیوں حرام ہوگیا؟ پس یا تویہ قصہ موضوع (گڑھا ہوا ) یا یہ لوگ اہل حال ہیں ۔جو معذور ہیں یا وہ شریعت سے ناواقف ہوں گے ۔اس لئے ایسے اقوال حجت نہیں ۔ واعظوں (اور مبلغین) کو ایسے قصے بیان کرنا جائز نہیں ۔اس قسم کے قصوں سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تقویٰ بہت دشوار ہے اور جب تقویٰ حاصل نہیں ہوسکتا ، اور حرام کھانے سے مفر( چارہ ) نہیں تو تھوڑا کھایا تب کیا زیادہ کھایا تب کیا ،(سب برابر ہے) بس اب بے احتیاطی شروع ہوگئی ۔پہلے ایک بے احتیاطی ہوئی پھر دوسری ۔پھر تیسری ۔پہلے تو شہبات سے بچنے کا اہتمام تھا ۔اب صریح حرام سے بھی پاک نہیں ۔یہ انجام ہے مبالغہ اور غلو کا ۔ (دعوت وتبلیغ)توحید میں غلو کی ایک مثال فرمایا ایک بار قحط واقع ہوا ۔اس میں ایک شخص کے گھر میں جس کو توحید میں غلو ہوگیا تھا۔ ایک گائے تھی وہ دود ھ دیا کرتی تھی ۔ایک دن اس کے کسی دوست نے پوچھا کہ اس قحط کے زمانہ میں کیسے بسر ہوتی ہے ؟اس شخص کی عورت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک گائے دے رکھی ہے اس کے دودھ سے آرام رہا ۔میاں صاحب غصہ ہوگئے ۔اور کہا کہ گائے تیری خدا