دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
{باب۶ } دعوت وتبلیغ میں مشورہ کی اہمیت وضرورت ہم لوگ ہوش سے کام نہیں لیتے (بلکہ) جوش سے کام لیتے ہیں پس جوش میں مشورہ کا بھی تو ہوش نہیں رہتا ۔اور جو ش بھی فی نفسہٖ بری چیز نہیں ۔جوش تو ہو مگر ہوش کے تابع ہو ۔ (آداب التبلیغ:ص ۱۲۴) صاحبو! جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ لینے کا حکم دیا گیا ہے ۔چنانچہ ارشاد ہے ’’وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ‘‘ تو ہم کو توضرور مشورہ لینا چاہئے ۔یہ سنت نبوی ہے اور ہمارے اکابر کا یہی طرز تھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مشورہ کرنے سے خواہ وہ چھوٹوں ہی سے ہو بعض دفعہ کوئی کام کی چیز نکل آتی ہے اور جب بڑے کوچھوٹے سے مشورہ کرنے کا حکم ہے تو چھوٹوں کی بدرجہ اولیٰ بڑوں سے پوچھنا چاہئے ۔پھر جس طرح اپنے اکابر اپنے مقتداء کہیں ، اس طرح کرلے ، یہ طریقہ ہے کام کرنے کا ۔ اہل علم کو بھی چاہئے جو کام کریں ،اپنے سے زیادہ عالم سے پوچھ کر کریں ۔بلکہ ترقی کرکے کہتا ہوں کہ بڑوں کو بھی چاہئے کہ چھوٹوں سے مشورہ کرلیا کریں اگرچہ بڑوں کو اکثر چھوٹوں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔مگر کبھی چھوٹوں کو کوئی بات ایسی معلوم ہوتی ہے ۔ جو بڑوں کو نہیں معلوم ہوتی۔ گوغالب ایسا نہیں ہوتا ہے ۔ اکثر تو بڑوں ہی کو زیادہ معلوم ہوتا ہے ۔مگر پھر بھی مشورہ کرلینا چاہئے ۔ اگر چہ ان کا علم زیادہ نہیں ۔ لیکن ممکن ہے کہ ان کو کوئی خاص مصلحت معلوم ہو۔کوئی واقعہ معلوم ہو۔بلکہ بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ واقعات چھوٹوں کو زیادہ معلوم ہوتے ہیں ۔بڑوں کو معلوم نہیں ہوتے اور واقعات کی لاعلمی سے ان کے کمال میں