دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ہماری طرف مولانا مظفر حسین صاحبؒ ایک بزرگ تھے ان کا قصہ ہے کہ مسجد میں پہنچے ،دیکھا کہ مؤذن ایک شخص سے جَھک جَھک کر رہا ہے ۔یہ شخص ایک پہلوان تھا جو غسل کرنے کے لئے آیا تھا ۔مؤذن اکثر لڑا کا اور بدمزاج ہوجاتے ہیں ، اس سے الجھ رہے تھے کہ نہ نماز کے نہ روزے کے، آجاتے ہیں مسجد میں ناپاکی دور کرنے کے لئے۔ مولانا نے موذن کو ڈانٹا ،کیوں احمق تیرا کیا حرج ہے! ایک مسلمان ناپاکی سے پاک ہونا چاہتا ہے تو توکیوں منع کرتا ہے ۔ان حضرات کو بے محل غصہ نہیں آتا… اس کے بعد اس پہلوان صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ تم اس کی باتوں کا خیال نہ کرو اور شوق سے نہائو ۔لائو میں پانی بھردوں ، بھلا اس کو تو وہ کب گوارہ کرتا وہ توپانی پانی ہوگیا ۔ اور پانی کھینچنے لگا ۔مولانا نے کہا کہ تم پہلوان معلوم ہوتے ہو،تم میں بڑا زور ہے، ذرا نفس پر زور نہیں دکھاتے، پہلوان ہوکر اس سے ایسے دبے ہوکہ صبح کی نماز کے لئے بھی نہیں اُٹھ سکتے ۔سویرے (جلدی) اُٹھاکرو اور دورکعت نماز پڑھ لیا کرو ۔ بس یہ بات اس کے دل میں گھس گئی ۔اور توبہ کی ۔اور نمازی ہوگیا ۔دیکھئے یہاں طاعت کا حکم ایسے شخص کو دیا گیا جو اس کا عادی بھی نہیں تھا ۔ پھر بھی اس کو ناگواری نہیں ہوئی پس ثابت ہوا کہ ناگواری اسی وقت ہوتی ہے جب بے طریقہ سے گفتگو ہو سخت بات میں خاصیت ہی یہ ہے کہ وہ کسی کو گوارہ نہیں ۔خواہ وہ نیک کام کے لئے ہو ۔ (وعظ الکاف ملحقہ مفاسد گناہ :ص ۱۴۵)مولانا شیخ محمد صاحبؒ کی حکایت اور اندازِ تبلیغ اور ایک بزرگ ہمارے قصبہ میں تھے مولانا شیخ محمد صاحبؒ ان کا قصہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک مسجد میں تشریف لے گئے ۔وہاں مسجد میں ایک بے نمازی آگیا تو چار وطرف سے لوگوں نے چڑانا شروع کیا کہ آہا آپ بھی آگئے ۔