دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
فصل(۲) دوسروں کی تحقیر سے احتراز اور حسن ظن کی ضرورت خدا جانے ہمیں تقدس (اور اپنی دینداری) پر کیوں نازہے۔ ہماری توحقیقت ہی کیا ہے ۔خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب ہے :’’وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ‘‘ اگر ہم چاہیں توسارا علم سلب کردیں ۔ ہمیں اپنے تھوڑے سے علم اورتھوڑے سے تقدس پر اس قدر ناز ہے کہ جہاں ذرا تسبیح ہلائی اور بزرگ ہوگئے ۔اب ساری دنیا سے جھگڑتے پھرتے ہیں … آپ کو کیا خبر ہے کہ آپ کا سارا تقدس دھرارہ جائے اور جن سے آپ جھگڑتے پھرتے ہیں ان کی آناً فاناً منزل تک رسائی ہوجائے ۔ ابھی کیا خبر کہ مرتے وقت ہم کس حال میں ہوں گے ابھی تو کشتی منجدھار میں ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے (کہ انجام کیا ہوگا )یہ فکر تو ایسی ہے کہ اس کے بعد نہ کسی کو کافر بنانے کی فکر اور نہ کسی کو فاسق کہنے کی فکر ہوتی ہے ۔میں اصلاح کو منع نہیں کرتا ۔مگر کسی کو حقیر نہ سمجھوکیوں کہ یہ توتکبیر ہے خدا جانے انجام کیا ہوگا ۔شیطان کو دیکھو کہ آٹھ لاکھ برس تک عبادت کرتا رہا ۔مگر ایک بات سے انکار کرکے مردود ہوگیا ۔ میں نے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ’’وہاں تو ذرا میں پکڑ ہے اور ذرا میں نوازدیتے ہیں ‘‘ ۔میں کہتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ پر تہمت ہے کہ ذرا میں پکڑ لیتے ہیں ۔اس سے توبہ کرنا چاہئے ۔وہاں ’’سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ‘‘ ہے(یعنی رحمت غضب پر سبقت کئے ہوئے ہے) ہاں یہ بالکل صحیح ہے کہ ذرا میں نواز دیتے ہیں ، باقی یہ نہیں ہوتا کہ ذرا میں پکڑلیں ۔شیطان جو راندہ درگاہ ہواتو کوئی تھوڑی بات نہ تھی جس کی وجہ سے راندہ درگاہ