دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
مجھے یہ شبہ رہا، بچپن کازمانہ تھا ۔پھر الحمداللہ سمجھ میں آگیا کہ چونکہ یہ فساد عملی ہے اس لئے اصلاح بھی عملی ہونی چاہئے ۔(حسن العزیز:ص ۶۷۸؍ج۱)عملی تبلیغ کا طریقہ اور حضرت تھانوی ؒ کا ایک واقعہ ایک مرتبہ مجھے سفر کا اتفاق پڑا۔ ریل میں ایک رئیس صاحب ہمراہ تھے انہوں نے جب کھانا کھایا اتفاق سے ایک بوٹی گرپڑی ۔انہوں نے جوتہ سے تختہ کے نیچے سرکادی ۔ چونکہ میں قولاً (زبان سے ) ان سے کچھ نہ کہہ سکتا تھا ،اس لئے میں نے عملاً حکم شرعی بتلانا چاہا تاکہ انہیں معلوم ہوجائے ۔اس لئے میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ اس بوٹی کو دھوکر مجھے دے دو میں کھائوں گا ۔انہوں نے کہا اگر میں کھالوں ؟ میں نے کہا یہ آپ کی ہمت ہے۔ چنانچہ انہوں نے کھالی ۔ میرے اس طرز عمل کا ان پر بے حد اثر پڑا ۔اور دوسروں سے کہنے لگے واقعی میری سمجھ میں آگیا اگر دس برس تک اس کے متعلق نصیحت کی جاتی تو دل میں نہ گھستی اور اس طریقہ سے ایک مرتبہ کا عمل عمر بھر کے لئے کارگرہوگیا ۔ صوفیاء پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ امر بالمعروف نہیں کرتے حالانکہ یہ اعتراض بالکل لغو ہے ان کے برابر کوئی بھی امر بالمعروف نہیں کرسکتا ۔ وہ تو امر بالمعروف ایسا کرتے ہیں کہ اپنے اوپر جھیلتے ہیں یعنی وہ قولاً (زبان سے ) امر بالمعروف کم کرتے ہیں زیادہ تر عملی تعلیم کرتے ہیں ۔کیوں کہ عملی تعلیم قولی تعلیم سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے ۔ (علوم العباد من علوم الرشاد ملحقہ حقوق وفرائض:ص ۱۴۲؍ج۲، التبلیغ)دوسرا واقعہ ایک مرتبہ میں کالپی میں تھا ایک شخص نہایت صاف ستھرا لباس پہنے ہوئے جامع مسجد میں نماز پڑھنے آیا بعض لوگوں نے مجھ سے کہا کہ یہ نومسلم ہے ۔پہلے بھنگی تھا ۔اب