دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
کریں اور سب کاموں کا انجام تو خدا ہی کے اختیار میں ہے۔ (بیان القرآن:ص ۷۵؍ج۷) اس آیت میں جہاں تمکین (قدرت وحکومت) کے مقاصد ذکر فرمائے ہیں ان میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر (اچھائیوں کا حکم کرنے اور برائیوں سے روکنے ) کو بھی جزء مقصود فرمایا گیا ہے ۔ (تجدید تعلیم وتبلیغ :ص۱۸۸)اصل چیز تبلیغ ہے اسی کے واسطے انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے دعوت وتبلیغ کی طرف سے اہل علم کی کوتاہی اور اس کا نتیجہ ہم لوگ جو پڑھے لکھے کہلاتے ہیں بس طالب علموں کے پڑھانے کو بڑی معراج سمجھتے ہیں مگر جو اصلی غایت(مقصد) اور تعلیم وتعلم کی صحیح غرض ہے ۔اور جو انبیاء علیہم السلام کا خاص کام ہے یعنی تبلیغ واشاعت جو بذریعہ وعظ ہوتی ہے اس کا کہیں پتہ بھی نہیں ۔ بلکہ جو اساتذہ علامہ کہلاتے ہیں وہ اسے موجب تذلیل اور باعث عار سمجھتے ہیں اوراس زعم باطل میں مبتلاہیں کہ وعظ کہنا جاہلوں کا کام ہے ۔ بس جی! تم نے جاہلوں کا کام سمجھ کر اسے چھوڑ دیا تو پھر جاہلوں ہی نے اسے لے لیا ۔ جنہیں معانی کی توکیا خبر ہوتی الفاظ تک درست اور صحیح نہیں ادا کرسکتے لوگوں نے وعظ کہتے دیکھ کر انہیں عالم سمجھ لیا اور عالم سمجھ کر وعظ کے بعد فتوے پوچھنا شروع کردئیے ، یہ بچارے عالم تو تھے نہیں مگر یہ کہتے ہوئے شرم آئی کہ مجھے مسائل نہیں معلوم ۔ مجبوراً جو جی میں آیا بتادیا اور غلط سلط فتویٰ دے دیا ، حدیث شریف میں ہے :’’ اِتَّخَذُوا رَوُسًا جَہَا لًا فَافْتَوْ بِغَیْرِ عِلْمِ فَضَلُّوا وَاَضَلُّوْا‘‘کہ آخر زمانہ کے لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے جو بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ تویہ نوبت کیوں آئی؟ صرف اس لئے کہ جن کا یہ کام تھا انہوں نے چھوڑ دیا اور اپنے