دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
کامیابی نہ ہوتو نہ ہونے دو۔اس کی پر وامت کرو۔نیز دعاء میں بھی یہ قصد نہ کرو کہ یہ ثمرہ ضرور مرتب ہوہی جائے ۔ مطلب یہ کہ دعاء تو اسی نیت سے کرے کہ مراد پوری ہوجائے لیکن یہ بھی دل میں رکھے کہ اگر نہ ہوتو اس پر بھی راضی اور خوش رہوں گامثلاً تندرستی کے لئے دعاء کرتا ہے کہ یا اللہ! ہمیں تندرست کردے ، تویہ نیت نہ کرے کہ اگر آپ کا جی چاہے تو کردیجئے اور مرضی نہ ہوتو نہ کیجئے۔ اس لئے کہ دعاء کے اندر ’’اِنْ شِئْتَ‘‘(اگر آپ چاہیں ) کہنے کی ممانعت ہے (دعاء توجزم اوریقین کے ساتھ کرے ) لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سمجھے کہ اگر قبول نہ ہوتو بھی میں راضی رہوں گا ۔ اورمیرے لئے وہی بہتر ہوگا ۔ اور اسی میں خیر یت ہوگی ۔ (آداب التبلیغ:ص ۱۳۰)تبلیغ میں کامیابی وناکامی پر ہم کو توجہ نہیں کرنا چاہئے کامیابی وناکامی پرہمیں توجہ نہ کرنا چاہئے کیونکہ ہم سے اس کی پوچھ نہ ہوگی ۔جناب رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم بھی چاہتے تھے کہ دنیا میں ایک بھی کافر نہ رہے ۔اور حق تعالیٰ نے آپ کو خاص طور پر اسی کام کے لئے بھیجابھی تھا ۔’’اِنَّااَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا‘‘ (بیشک ہم نے آپ کو بشیر ونذیر بناکر بھیجا ہے ) مگر اس کے باوجود صاف فرمادیا گیا کہ آپ سے یہ سوال نہ ہوگا کہ تمہارے زمانہ کے کچھ لوگ دوزخی کیوں ہوئے ۔ ایک جگہ فرمایا ہے ۔’’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ ‘‘ شاید آپ ان کفار کے پیچھے اپنی جان کھپا دیں گے ۔اور ایک جگہ فرمایا :’’وَلَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ‘‘ حاصل یہ کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے پر غمگین نہ ہوں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے گویہ آپ کا فرض منصبی نہ تھا کہ آپ اس قدر بلیغ کوشش فرمائیں ، مگر آپ اپنی طبعی رحمت وشفقت کے تقاضے سے یہ چاہتے تھے کہ ایک بھی