دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
پہچانی بات بن کررہ جائے ۔ اسی امر بالمعروف کا دوسرا نام دعوت وتبلیغ ہے ۔ دعوت وتبلیغ کا کام جتنا اہم ہے اسی قدر نازک ہے ۔شریعت کے احکام دراصل دوطرح کے ہیں ۔ایک وہ ہیں جن میں مقاصد اور طریق کار دونوں کی خود شریعت نے تعیین کردی ہے ۔نماز کا مقصد خدا کی یاد کی تجدید ہے ۔روزہ کی فرضیت تقویٰ کے لئے ہے ۔ زکوٰۃ اس لئے ہے کہ مال کی محبت پر خدا کی محبت غالب ہو ۔حج رب کائنات سے محبت اور وار فتگی کا اظہار ہے ۔ ان مقاصد کے ساتھ ساتھ شریعت نے ان عبادتوں کے طریقے اور اس کی تمام جزوی تفصیلات کو بھی متعین کردیا ہے ، انسان کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ ان تفصیلات کو بجالائے … لیکن کچھ اعمال ایسے ہیں جن میں شریعت نے منشاومقصود کو توواضح کردیا ہے لیکن طریقہ عمل کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں ۔انہی احکام میں ایک دعوت وتبلیغ بھی ہے اس کا مقصد متعین ہے اوروہ ہے معروف اور نیکی کی ترویج اور برائی سے سماج کی حفاظت ، لیکن شریعت نے نماز روزہ کی طرح اس کے طریق کارکی تفصیل متعین نہیں کی ہے اور یہ تعیین ممکن بھی نہ تھی ، مخاطب کبھی لکھا پڑھا اور کبھی ان پڑھ ، کبھی حقیقت پسند شخص ہوگا، کبھی ایسے لوگ ہوں گے جن میں ماننے کی صلاحیت نہ ہوگی ، کسی کے لئے پند وموعظت کافی ہوگی اور کسی کے لئے لیل وحجت درکار ہوگی ، حالات اور مقامات کے فرق سے بھی دعوت ونصح کے طریق کار میں تبدیلی لانی ہوگی، کہیں گرمی مطلوب ہوگی اور کہیں نرمی، اس لئے داعی کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے کہ وہ موقع وحال اور مخاطب کی رعایت کرتے ہوئے اس بات کا انتخاب کرے کہ یہاں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے لئے کون سا طریقہ مؤثر ہوگا۔ اس لئے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ دعوت دین کے سلسلہ میں کسی خاص طریقہ کارپر اصرار اور اس پر جمودصحیح نہیں ہے ، واعظ کا وعظ کہنا بھی دعوت ہے ، مفتی کا فتویٰ دینا بھی امر بالمعروف میں داخل ہے ، خانقاہوں میں شرعی تعلیمات کے مطابق بیعت اور تزکیہ واحسان بھی تبلیغ ہے ، مدارس میں مدرسین کا پڑھانا بھی تبلیغ ہے ۔جمعہ کے خطبہ اور مواعظ بھی دعوت دین