دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
’’لَتَبْلَوُنَّ فِیْ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْالْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا اَذًیً کَثِیْرًا وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ‘‘۔( سورہ آل عمران،پ۴) ’’لَتَبْلَوُنَّ الخ‘‘ یعنی جان ومال میں تمہاری آزمائشیں ہوں گی ۔’’وَلَتَسْمَعُنَّ‘‘ اور مشرکین اور اہل کتاب سے اذیت(تکلیف) کی باتیں سنوگے ۔اس کی تفسیر میں مفسرین نے یہی واقعہ لکھا ہے کہ وہ اپنے اشعار میں مسلمانوں کی بیویوں کا نام لے لے کر اظہار عشق کرتے تھے ۔اتنی بڑی غیظ وغضب سننے کے بعد فرماتے ہیں :’’اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا‘‘ الخ کہ اگر تم صبر کرو اور بچو(یعنی جہالت کی باتوں سے )تویہ بڑی عزیمت کی بات ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :’’وَقُلْ لِعِبَادِیْ یَقُوْلُ الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ‘‘ میرے بندوں سے فرمادیجئے کہ وہ نرم بات کہا کریں ۔ ’’اِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْزَغُ بَیْنَہُمْ‘‘ شیطان درمیان میں جھڑپ کرانا چاہتا ہے جب جھڑپ اور لڑائی ہوگی تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ دونوں طرف سے عداوت بڑھ جائے گی ۔ اب حدیث سنئے کہ سب سے بڑھ کر شرارت اور گستاخی کفار کی یہ تھی کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کو مذمم سے بدل لیا تھا ۔اور مذمم کی سخت ہجو(برائی) کیا کرتے تھے ۔آپ خود ہی اندازہ کرلیجئے کہ ایسے سخت الفاظ سن کر مسلمانوں کا کیاحال ہوتا ہوگا۔ پھر مسلمان بھی ہمارے آپ کی طرح نہیں بلکہ اس وقت کے مسلمان ۔مگر قربان جائیے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ نے ایسی سخت بات کو مسلمانوں کے دلوں سے کیسا ہلکا کیا ہے فرماتے ہیں :’’اُنْظُرُوْا کَیْفَ صَرَفَ اللّٰہُ عَنِّیْ شَتَمَ قُرَیْشِِ ‘‘ یعنی دیکھوشتم قریش کو(یعنی قریش کے برا بھلا کہنے کو )خدا نے مجھ سے کیسے ہٹالیا ’’یَشْتُمُوْنَ مُذَمَّمًا وَیَلْعَنُوْنَ مُذَمَّمًا وَاَنَا مُحَمَّدٌ‘‘ کہ وہ شتم ولعنت کرتے ہیں مذمم پر اور میں تو محمد ہوں ، توخدا نے مجھے گستاخی سے کیسے بچالیا کیوں کہ انہوں نے جو برائی کی وہ مذمم (یعنی برے آدمی کی برائی ) کی