دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
کوئی دلی دوست ہوتا ہے ’’کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ‘‘ میں لفظ تشبیہ سے اس طرف لطیف اشارہ ہے کہ بعض لوگ نرمی کرنے سے بالکل ہی دوست ہوجاتے ہیں ۔اور بعض لوگ اگر دوست نہیں ہوتے لیکن ان کی عداوت ضرور گھٹ جاتی ہے اور برائی میں کمی آجاتی ہے ۔اور اس امر میں وہ دوست کے مشابہ ہوجاتا ہے ۔ گودلی دوست نہ ہو۔مگر اس میں ایک شرط ہے سلامتی طبیعت ۔ یعنی یہ قاعدہ کلیہ نہیں بلکہ اکثر یہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر مخاطب کی طبیعت میں سلامتی ہوگی تو اس برتائو کا اثر ضرور ہوگا ۔ اور یہ قید دلیل عقلی سے پائی گئی ہے ۔پس اب یہ اشکال نہ رہا کہ بعض دفعہ ہم دشمن سے کتنی ہی نرمی کرتے ہیں مگر عداوت بڑھتی ہی جاتی ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ برائی کا بدلہ بھلائی سے کرنا ہر ایک کو آسان نہیں ،بلکہ یہ بات اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا مستقل مزاج اور صاحب نصیب ہے یعنی جو اخلاقی اعتبار سے مستقل اور آخرت کے ثواب کے اعتبار سے صاحب نصیب ہے ۔ اس میں طریقہ بھی بتلادیا کہ اپنے اندر استقلال کا مادہ پیدا کرو اور آخرت کے حصہ کو دل میں جگہ دوپھر یہ سب کچھ آسان ہوجائے گا ۔ آگے فرماتے ہیں :’’وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْبِاللّٰہِ ‘‘ کہ اگر کسی وقت شیطان کی طرف سے غصہ کا وسوسہ آنے لگے تو فوراً اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے ۔ اس میں غصہ کا علاج بتلایاگیا ہے کہ غصہ کے وقت زبان سے اعوذ باللہ پڑھنا چاہئے اور دل سے اس کے مضمون پر غو ر کرنا چاہئے کہ جیسے ہم دوسرے پر غصہ کرتے ہیں اور اس وقت بظاہر اس پر زبردست ہیں ایسے ہی ہمارے اوپر بھی ایک زبردست ہے جس کی پناہ کی ہم کو ضرورت ہے اس کے بعد ایک مراقبہ کی تعلیم ہے جس کے عمل کرنے سے غصہ وغیرہ کا دفعہ کرنا بہت سہل ہوجائے گا ’’اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اقوال کو خوب سنتے اور تمہارے اعمال واحوال کو خوب جانتے ہیں اس لئے جو بات کرو اور جو کام کرو سنبھل کرکرو،غصہ میں جلدی سے کچھ کام نہ کرو ممکن ہے کہ حق تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام ہوجائے تو گرفت ہو ۔ (الاستقامت ملحقہ دعوت وتبلیغ:ص ۴۵۴،۴۵۵)