الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہو سکتی؟ یہ سن کر وہ دفعتہً بڑھے اور اس قدر تیر برسائے کہ فیل نشینوں کو گرا دیا۔ پھر قریب پہنچ کر تمام ہودے اور عماریوں الٹ دیں۔ شام تک یہ ہنگامہ رہا۔ جب بالکل تاریکی چھا گئی تو دونوں حریف میدان سے ہٹے۔ قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا اور عربی میں اس کو یوم الارماث کہتے ہیں۔ سعد جس وقت بالا خانہ پر بیٹھے فوج کر لڑا رہے تھے ان کی بیوی سلمٰی بھی ان کے برابر بیٹھی تھیں۔ ایرانیوں نے جب ہاتھیوں کو ریلا اور مسلمان پیچھے ہٹے تو سعد غصے کے مارے بیتاب ہوئے جاتے تھے۔ اور بار بار کروٹیں بدلتے تھے۔ سلمٰی یہ حالت دیکھ کر بے اختیار چلا اٹھیں کہ " افسوس آج مثنی نہ ہوا۔ " سعد نے اس کے منہ پر تھپڑ کھینچ کر مارا کہ " مثنی ہوتا تو کیا کر لیتا۔ " سلمٰی نے کہا " سبحان اللہ بزدلی کے ساتھ غیرت بھی۔ " یہ اس بات پر طعن تھا کہ سعد خود لڑائی میں شریک نہ تھے۔ اگلے دن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے میدان جنگ سے مقتولوں کی لاشیں اٹھوا کر دفن کرائیں اور جس قدر زخمی تھے ، مرہم پٹی کے لیے عورتوں کے حوالے کئے پھر فوج کو کمر بندی کا حکم دیا۔ لڑائی ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ شام کر طرف سے غبار اٹھا۔ گرد پھٹی تو معلوم ہوا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام سے جو امدادی فوجیں بھیجی تھیں وہ آ پہنچیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس زمانے میں عراق پر حملے کی تیاریاں شروع کی تھیں اسی زمانے میں ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو شام کی مہم پر مامور تھے۔ لکھ بھیجا تھا کہ عراق کو جو فوج وہاں بھیج دی گئی تھی اس کو حکم دو کہ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج سے جا کر مل جائے۔ چنانچہ عین وقت پر یہ فوج پہنچی اور تائید غیبی سمجھی گئی۔ چھ ہزار سپاہی تھے۔ جن میں پانچ ہزار ربیعہ و مضر اور ہزار خاص حجاز کے تھے۔ ہاشم بن عتبہ سعد کے بھائی سپہ سالار تھے۔ اور ہراول قعتاع کی رکاب میں تھا۔ قعتاع نے پہنچتے ہی صف سے نکل کر پکارا کہ ایرانیوں میں کوئی بہادر ہو تو مقابلے کو آئے۔ ادھر سے بہمن نکلا۔ قعقاع جسر کا واقعہ یاد کر کے پکار اٹھے کہ " لینا ابو عبیدہ کا قاتل جانے نہ پائے " دونوں حریف تلوار لے کر مقابل ہوئے اور کچھ دیر کی رد و بدل کے بعد بہمن مارا گیا۔ دیر تک دونوں طرف کے بہادر تنہا تنہا میدان میں نکل کر شجاعت کے جوہر دکھاتے رہے۔ سیتان کا شہزادہ براز، اعوان بن قطبہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ بزر جمیر ہمدانی جو ایک مشہور بہادر تھا، قععاع سے لڑ کر قتل ہوا۔ غرض ہنگامہ ہونے سے پہلے ایرانی فوج نے اکثر اپنے نامور بہادر کھو دیئے۔ تاہم بڑے زور شور سے دونوں فوجیں حملہ آور ہوئیں۔ شام کی امدادی فوج کو قعقاع نے اس تدبیر سے روانہ کیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے دستے کر دیئے تھے۔ اور جب ایک دستہ میدان جنگ میں پہنچ جاتا تھا تو دوسرا ادھر سے نمودار ہوتا تھا۔ اس طرح تمام دن فوجوں کا تانتا بندھا رہا۔ اور ایرانیوں پر رعب چھاتا گیا۔ ہر دستہ اللہ اکبر کے نعرے مارتا ہوا آتا تھا قعقاع اس کے ساتھ ہو کر دشمن پر حملہ آور ہوتے تھے۔ ہاتھیوں کے لئے قعقاع نے یہ تدبیر کی کہ اونٹوں پر جھول ڈال کر ہاتھیوں کی طرح مہیب بنایا۔ یہ مصنوعی ہاتھی جس طرف رخ کرتے تھے ایرانیوں کے گھوڑے بدک کر سواروں کے قابو سے نکل جاتے تھے۔