الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۳) جس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ آنحضرت صلی اللہ کو چھوڑ کر سقیفہ کو چلے گئے تھے ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے چلے ائے تھے ، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں بنو ہاشم کا مجمع ہوا تھا۔ سقیفہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نہ جانا اس وجہ سے نہ تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے غم و الم میں مصروف تھے ، اور ان کو ایسے پر درد موقع پر خلافت کا خیال نہیں آ سکا تھا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ سقیفہ میں مہاجرین اور انصار جمع تھے۔ اور ان دونوں گروہ میں سے کوئی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دعویٰ کی تائید نہ کرتا۔ کیونکہ مہاجرین حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیشوا تسلیم کرتے تھے۔ اور انصار کے رئیس سعد بن عبادہ تھے۔ اخیر بحث یہ ہے کہ جو کچھ ہوا وہ بے جا تھا یا بجا؟ اس کو ہر شخص جو ذرا بھی اصول تمدن سے واقفیت رکھتا ہو باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت وفات پائی، مدینہ منورہ منافقوں سے بھرا پڑا تھا جو مدت سے اس باتکے منتظر تھے کہ رسول اللہ کا سایہ اٹھ جائے تو اسلام کو پامال کر دیں۔ اس نازک وقت میں آیا یہ ضروری تھا کہ لوگ جزع اور گریہ زاری میں مصروف رہیں یا یہ کہ فوراً خلافت کا انتظام کر لیا جائے۔ اور ایک منطم حالت قائم ہو جائے۔ انصار نے اپنی طرف سے خلافت کی بحث چھیڑ کر حالت کو اور نازک کر دیا۔ کیونکہ قریش جو انصار کو اس قدر حقیر سمجھتے تھے کہ جنگ بدر میں جب انصار ان کے مقابلے کو نکلے تو عتبہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے کہا کہ " محمد! ہم نا جنسوں سے نہیں لڑ سکتے " کسی طرح انصار کے آگے سر تسلیم خم نہیں کر سکتے تھے۔ قریش پر کیا موقوف ہے ، تمام عرب کو انصار کی متابعت سے انکار ہوتا، چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سقیفہ میں جو خطبہ دیا اس میں صاف اس خیال کو ظاہر کیا اور کہا " و ان العرب لا تعرف ھذا الا مرالا لھذا الحیی من قریش" اس کے علاوہ انصار میں خود گروہ تھے ، اوس اور خزرج اور ان میں باہم اتفاق نہ تھا۔ اس حالت میں ضروری تھا کہ انصار کے دعویٰ خلافت کو دبا دیا جائے ، اور کوئی لائق شخص فوراً انتخاب کر لیا جائے۔ مجمع میں جو لوگ موجود تھے ان میں سب سے با اثر بزرگ اور معمر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اور فوراً ان کا انتخاب بھی ہو جاتا۔ لیکن لوگ انصار کی بحث و نزاع میں پھنس گئے تھے۔ اور بحث طول پکڑ گئی۔ قریب تھا کہ تلواریں میان سے نکل آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رنگ دیکھ کر دفعتہً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا کہ سب سے پہلے میں بیعت کرتا ہوں۔ ساتھ ہی حضرت عثمان، ابو عبیدہ بن جراح، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہم نے بھی ہاتھ بڑھا دیئے (ابن المادردی نے الاحکام السلطانیہ میں لکھا ہے کہ اول صرف پانچ شخصوں نے بیعت کی تھی)۔ اور پھر عام خلقت ٹوٹ پڑی۔ اس کاروائی سے ایک اٹھتا ہوا طوفان رک گیا۔ اور لوگ مطمئن ہو کر کاروبار میں مشغول ہو گئے۔ صرف بنو ہاشم اپنے ادغا پر رکے رہے ، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں وقتاً فوقتاً جمع ہو کر