الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(۱) کیا خلافت کا سوال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ نے چھیڑا تھا؟ (۲) کیا یہ لوگ خود اپنی خواہش سے سقیفہ بنی ساعدہ میں گئے تھے ؟ (۳) کیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بنو ہاشم خلافت کی فکر سے بالکل فارغ تھے ؟ (۴) ایسی حالت میں جو کچھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ نے کیا، وہ کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟ پہلی دو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی نسبت ہم نہایت مستند کتاب ابو۔ ۔ ۔ ۔ کی عبارت نقل کرتے ہیں جس سے واقعہ کی کیفیت بخوبی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ بینما لحن فی منزل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اذا رجل ینادی من وراء ال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان اخرج الی یا ابن الخطاب فقلت الیک عنی فانا عنک مشاغیل یعنی بامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فقال لہ قد حدث امر فان الانصار اجمعوا فی سقیفۃ بنی ساعدہ فادر کو ھم ان یحدثوا امر یکون فیہ حرب فقلت لابی بکر انفلقَ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حلقہ مبارک میں بیٹھے تھے کہ دفعتاً دیوار کے پیچھے سے ایک آدمی نے آواز دی کہ ابن الخطاب (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ذرا باہر آؤ۔ میں نے کہا چلو ہٹو ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بندوبست میں مشغول ہیں۔ اس نے کہا کہ ایک حادثہ پیش آیا ہے۔ یعنی انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس لئے جلد پہنچ کر ان کی خبر لو۔ ایسا نہ ہو کہ انصار کچھ ایسی باتیں کر اٹھیں جس سے لڑائی چھڑ جائے۔ اس وقت میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ چلو۔ " اس سے ظاہر ہو گیا کہ نہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ نے خلافت کی بحث کو چھڑا تھا نہ اپنی خواہش سے سقیفہ بنی ساعدہ کو جانا چاہتے تھے۔