الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صلی اللہ علیہ و سلم کا قول ہذیان تو نہیں کہ اس کا لحاظ نہ کیا جاوے۔ یہ تاویل دل کو لگتی ہوئی ہے۔ لیکن بخاری و مسلم کی بعض روایتوں میں ایسے الفاظ ہیں جن میں تاویل کا احتمال نہیں۔ مثلاً ھجر ھجر (دو دفعہ) با ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ھجر (صحیح مسلم)۔ اب سب سے پہلے یہ امر لحاظ کے قابل ہے کہ جب اور کوئی واقعہ یا قرینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اختلال حواس کا کہیں کسی روایت میں مذکور نہیں تو صرف اس قدر کہنے سے کہ " قلم دوات لاؤ" لوگوں کو ہذیان کا کیونکر خیال پیدا ہو سکتا ہے ؟ فرض کر لو کہ انبیاء سے ہذیان سرزد ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ معمولی بات بھی کہیں تو ہذیان سمجھی جائے۔ ایک پیغمبر کا وفات کے قریب یہ کہنا کہ قلم دوات لاؤ میں ایسی چیزیں لکھ دوں کہ تم آئندہ گمراہ نہ ہو اس میں ہذیان کی کیا بات ہے۔ (ہمارے نکتہ سنجوں نے یہ مضمون آفرینی کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لکھنا نہیں جانتے تھے اس لئے آپ کا یہ فرمانا کہ میں لکھ دوں ہذیان کا قرینہ تھا۔ لیکن اس لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ لکھنے کے معنی لکھوانے کے بھی آتے ہیں۔ اور یہ مجاز عموماً شائع و ذرائع ہے۔ ) یہ روایت اگر خواہ مخواہ صحیح سمجھی جائے تب بھی اس قدر سیر حال تسلیم کرنا ہو گا کہ راوی نے روایت میں وہ واقعات چھوڑ دیئے ہیں جن سے لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہوش میں نہیں ہیں۔ اور مدہوشی کی حالت میں قلم دوات طلب فرما رہے ہیں۔ پس ایسی روایت سے جس میں راوی نے واقعہ کی نہایت ضروری خصوصیتیں چھوڑ دیں۔ کسی واقعہ پر کیونکر استدلال ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ جب ان امور کا لحاظ کیا جائے کہ اتنے بڑے عظیم الشان واقعہ میں تمام صحابہ میں سے صرف حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے راوی ہیں اور یہ کہ ان کی عمر اس وقت 13-14 برس کی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ واقعہ کے وقت موجود نہ تھے۔ تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس روایت کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کوتاہ نظر پر یہ امر گراں گزرے کہ بخاری اور مسلم کی حدیث پر شبہ کیا جائے لیکن اس کو سمجھنا چاہیے کہ بخاری اور مسلم کے کسی راوی کی نسبت یہ شبہ کرنا کہ وہ واقعہ کی پوری ہیئت محفوظ نہ رکھ سکا، اس سے کہیں زیادہ آسانی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت ہذیان اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت گستاخی کا الزام لگایا جائے۔ غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس واقعہ کے بعد چار دن زندہ رہے۔ اور اس اثناء میں وقتاً فوقتاً بہت سی ہدادیتیں اور وصیتیں فرمائیں۔ عین وفات کے دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حالت اس قدر سنبھل گئی تھی کہ لوگوں کو بالکل صحت کا گمان ہو گیا تھا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی خیال سے اپنے کو جو مدینہ منورہ سے دو میل پر تھا واپس چلے گئے (طبری -14)۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وفات کے وقت تک موجود رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے 12 ربیع الاول 11 ہجری دو شنبہ کے دن دوپہر کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں انتقال فرمایا۔ سہ شنبہ کو دوپہر ڈھلنے پر مدفون ہوئے۔ جماعت اسلام کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو صدمہ ہوا اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے ؟ عام روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر خود رفتہ ہوئے کہ مسجد نبوی میں جا کر اعلان کیا کہ " جو شخص یہ کہے