الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آیا اور رخساروں میں مغفر کی کڑیاں چبھ گئیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک گڑھے میں گر پڑے۔ اور لوگوں کی نظر سے چھپ گئے۔ اس برہمی میں یہ غُل پڑ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مارے گئے۔ اسی خبر نے مسلمانوں کے استقلال کو متزلزل کر دیا۔ اور جو جہاں تھا وہیں سراسیمہ ہو کر رہ گیا۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اخیر تک کس قدر صحابہ ثابت قدم رہے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف سات انصار اور دو قریشی یعنی سعد اور طلحہ رہ گئے تھے۔ نسائی اور بیہقی میں بسند صحیح منقول ہے کہ گیارہ انصار اور طلحہ کے سوا اور کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہیں رہا تھا۔ محمد بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 14 آدمیوں کا نام لیا ہے۔ اسی طرح اور بھی مختلف روایتیں ہیں (یہ پوری تفصیل فتح الباری مطبوعہ مصر جلد 7 میں ہے )۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ان روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ لوگ جب ادھر ادھر پھیل گئے تو کافروں نے دفعتاً عقب سے حملہ کیا۔ اور مسلمان سراسیمہ ہو کر جو جہاں تھا وہ وہیں رہ گیا۔ پھر جس طرح موقع ملتا گیا لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچتے گئے۔ تمام روایتوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو کچھ تو ایسے سراسیمہ ہوئے کہ انہوں نے مدینہ آ کر دم لیا۔ کچھ لوگ جان پر کھیل کر لڑتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد جینا بیکار ہے۔ بعضوں نے مجبور و مایوس ہو کر سپر ڈال دی کہ اب لڑنے سے کیا فائدہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس تیسرے گروہ میں تھے۔ علامہ طبری میں بسند متصل جس کے رواۃ حمید بن سلمہ، محمد بن اسحاق، قاسم بن عبد الرحمٰن بن رافع ہیں، روایت کی ہے کہ اس موقع پر جب انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور چند مہاجرین اور انصار کو دیکھا کہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے ہیں، تو پوچھا کہ بیٹھے کیا کرتے ہو، ان لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ نے جو شہادت پائی۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے کہ رسول اللہ کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے تم بھی انہی کی طرح لڑ کر مر جاؤ۔ یہ کہہ کر کفار پر حملہ آور ہوئے اور شہادت حاصل کی (طبری 4)۔ قاضی ابو یوسف نے خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ انس بن نضر میرے پاس سے گزرے اور مجھ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کیا گزری۔ میں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ شہید ہوئے۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ شہید ہوئے تو ہوئے خدا تو زندہ ہے۔ یہ کہہ کر تلوار میان سے کھینچ لی۔ اور اس قدر لڑے کہ شہادت حاصل کی (کتاب الخراج )۔ ابن ہشام میں ہے کہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ میں ستر زخم کھائے۔ طبری کی روایت میں یہ امر لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں میں طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام بھی ہے۔ اور یہ مسلم ہے کہ اس معرکہ میں ان سے زیادہ کوئی ثابت قدم نہیں رہا تھا۔ بہرحال یہ امر تمام روایتوں سے