الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بہر حال 8 رمضان 3 ہجری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم 313 آدمیوں کے ساتھ جن میں 83 مہاجرین اور باقی انصار تھے ، مدینہ سے روانہ ہوئے۔ قریش کے ساتھ 950 کی جمیعت تھی۔ جن میں بڑے بڑے مشہور بہادر شریک تھے۔ مقام بدر میں جو مدینہ منورہ سے قریباً 6 منزل پر ہے ، معرکہ ہوا۔ اور کفار کو شکست ہوئی۔ مسلمانوں میں سے 14 آدمی شہید ہوئے جن میں 6 مہاجر اور 8 انصار تھے۔ قریش کی طرف سے 70 مقتول اور 80 گرفتار ہوئے۔ مقتولین میں ابو جہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ اور بڑے بڑے رؤسائے مکہ تھے ، اور ان کے قتل ہونے سے قریش کا زور ٹوٹ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ اس معرکہ میں رائے و تدبیر، جانبازی و پامردگی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست و بازو رہے۔ لیکن ان کی شرکت کی مخصوص خصوصیات یہ ہیں : (1) قریش کے تمام قبائل اس معرکہ میں آئے۔ لیکن بنو عدی یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبیلے میں سے ایک متنفس بھی شریک جنگ نہیں ہوا۔ (طبری کبیر میں ہے : ولم یکن بقی من قریش بطن الانفر منھم نا سالاناس الا بنی عدی بن کعب لم یخرج رجل واحد )۔ اور یہ امر جہاں تک قیاس کیا جا سکتا ہے صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رعب و ذات کا اثر تھا۔ (2)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ان کے قبیلے اور حلفاء کے 12 آدمی شریک جنگ تھے۔ جن کے نام یہ ہیں : زید، عبد اللہ بن سراقہ، عمرو بن سراقہ، واقد بن عبد اللہ، خولی بن ابی خولی، عامر بن ربیعہ، عامر بن بکیر، خالد بن بکیر، ایاس بن بکیر، عاقل بن بکیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ (3)سب سے پہلے جو شخص اس معرکہ میں شہید ہوا وہ مھجع حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام تھا۔ (ابن ہشام )۔ (4) عاصی بن ہشام بن مغیرہ جو قریش کا ایک معزز سردار اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ماموں تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ (ابن حریر و استیعاب)۔ یہ بات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خصوصیات میں شمار کی گئی ہے کہ اسلام کے معاملات میں قرابت اور محبت کا اثر ان پر کبھی غالب نہیں آ سکتا تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ اس کی پہلی مثال ہے۔