الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مسند دارمی میں قرظہ بن کعب کی روایت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ مطلب تھا کہ غزوات کے متعلق کم روایت کی جائے۔ اس سے فرائض اور سنن مقصود نہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب دارمی کے قول کو نقل کر کے لکھتے ہیں، میرے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے شمائل اور عادات کی حدیثیں مراد ہیں۔ کیونکہ ان سے کوئی غرض شرعی متعلق نہیں یا وہ حدیثیں مقصود ہیں جن کے حفظ اور ضبط میں کافی اہتمام نہیں کیا گیا (ازالۃ اخفاء صفحہ 141 حصہ دوم)۔ ہمارے نزدیک ان تاویلات کی ضرورت نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد خود انہی کی تصریح سے معلوم ہو سکتا ہے۔ مؤرخ بلاذری نے جو محدث بھی ہیں، انساب الاشراف میں روایت کی ہے کہ لوگوں نے ان سے کوئی مسئلہ پوچھا تو فرمایا۔ لو لا انی اکرہ ان ازید فی الحدیث او انقص لحدثتکم بہ۔ یعنی " اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ حدیث کی روایت کرنے میں مجھ سے کچھ کمی بیشی ہو جائے گی تو میں حدیث بیان کرتا۔ " مؤرخ مذکور نے اس روایت کو بسند متصل روایت کیا ہے اور رواۃ یہ ہیں۔ محمد بن سعد، عبد الحمید بن عبد الرحمٰن الحمافی، نعمان بن ثابت (ابو حنیفہ)، موسی بن طلحہ، ابو الحوتکیہ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی نسبت جو ڈر تھا وہی اوروں کی نسبت بھی ہونا چاہیے تھا۔ اس خیال کی تصدیق اس سے اور زیادہ ہوتی ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو مقامات علمی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تربیت یافتہ خاص تھے ان کی نسبت محدثین نے لکھا ہے کہ۔ یشدد فی الرویۃ و یزجر تلامذتہ عن التھاون فی ضبط الالفاظ (تذکرہ الحفاظ تذکرہ عبد اللہ بن مسعود) یعنی "وہ روایت میں سختی کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو ڈانٹتے رہتے تھے کہ الفاظ حدیث کے محفوظ رکھنے میں بے پرواہی نہ کریں۔ " محدثین نے بھی لکھا ہے کہ وہ کم حدیثیں روایت کرتے تھے یہاں تک کہ سال سال بھر قال رسول نہیں کہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روایت کے بارے میں جو احتیاط تھی اگرچہ ان سے پہلے بھی اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو تھی۔