الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عبد الرحمٰن بن عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو میرے مکان پر آئے۔ میں نے کہا آپ نے کیوں تکلیف کی۔ مجھ کو بلا لیا ہوتا۔ فرمایا کہ ابھی مجھے معلوم ہوا ہے کہ شہر سے باہر ایک قافلہ اترا ہے۔ لوگ تھکے ماندے ہوں گے۔ آؤ ہم تم چل کر پہرہ دیں۔ چنانچہ دونوں اصحاب گئے اور رات بھر پہرہ دیتے رہے۔ جس سال عرب میں قحط پڑا، ان کی عجیب حالت ہوئی۔ جب تک قحط رہا، گوشت، گھی، مچھلی، غرض کوئی لذیذ چیا نہ کھائی۔ نہایت خضوع سے دعائیں مانگتے تھے کہ " اے خدا! محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کو میری شامت اعمال سے تباہ نہ کرنا۔ " اسلم، ان کے غلام، کا بیان ہے کہ قحط کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو فکر و تردد رہتا تھا اور اس سے قیاس کیا جاتا تھا کہ اگر قحط رفع نہ ہوا تو وہ اسی غم میں تباہ ہو جائیں گے (یہ تمام روایتیں کنز العمال جلد 6 صفحہ 343 میں مستند حوالوں سے منقول ہیں)۔ قحط کا جو انتظام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا اس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ ایک دفعہ ایک بدو ان کے پاس آیا، اور یہ اشعار پڑھے : یا عمر الخیر خیر الجنۃ اکس بناتی و امھنہ اقسم باللہ لتفعلنہ "اے عمر! لطف اگر ہے تو جنت کا ہے۔ میری لڑکیوں کو کپڑے پہنا۔ خدا کی قسم تجھ کو یہ کرنا ہو گا۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اور میں تمہارا کہنا نہ کروں تو کیا ہو گا۔ بدو نے کہا تکون عن حالی لتسئلنہ والواقف المسئول یبھتنہ اما الی نار و اما جنۃ "تجھ سے قیامت کے روز میری نسبت سوال ہو گا اور تو ہکا بکا رہ جائے گا۔ پھر یا دوزخ کی طرف یا بہشت کی طرف جانا ہو گا۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر روئے کہ داڑھی تر ہو گئی۔ غلام سے کہا کہ میرا یہ کرتا اس کو دے۔ اس وقت اس کے سوا اور کوئی چیز میرے پاس نہیں۔ (سیرۃ العمرین و ازالۃ اخفاء)۔ ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک عورت اپنے بالا خانے پر بیٹھی یہ اشعار گا رہی تھی۔