الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک دفعہ عبد الرحمٰن بن عوف نے پوچھا کہ " آپ ہم لوگوں کو باہر جانے سے کیوں روکتے ہیں" فرمایا کہ اس کا جواب نہ دینا جواب دینے سے بہتر ہے (تاریخ یعقوبی صفحہ 181)۔ اپنے قبیلے کے لوگوں کو کبھی ملکہ عہدے نہیں دیئے۔ صرف نعمام بن عدی کو ضلع کا حاکم مقرر کیا تھا پھر ایک معقول وجہ سے موقوف کر دیا۔ بنو ہاشم کو بھی ملکی عہدنے نہیں دیئے اور اس میں زیادہ تر یہی مصلحت ملحوظ تھی۔ اس وقت تمام عرب میں تین شخص موجود تھے جو مشہور مدبر اور صاحب ادعا تھے۔ امیر معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ، چونکہ مہمات ملکی کے انجام دینے کے لئے ان لوگوں سے بڑھ کر تمام عرب میں کوئی شخص ہاتھ نہیں آ سکتا تھا۔ اس لئے سب کو بڑے بڑے عہدے دیئے ، لیکن ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے اور ایسی تدبیر کرتے کہ وہ قابو سے باہر نہ ہونے پائیں۔ ان کی وفات کے بعد کوئی ایسا شخص نہ رہا جو کو دبا سکتا چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جو ہنگامے برپا ہوئے وہ سب انہیں لوگوں کی بدولت تھے۔ سیاست اور پالیٹکس حکومت اور سلطنت کا لازمہ ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس باب میں تمام دنیا پر جو امتیاز حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اور بادشاہوں نے پالیٹکس کی ضرورت سے جو جو کام کیے ان کا نام واقعی خدع، مکر، فریب، ظاہر داری اور نفاق تھا۔ بادشاہوں پر موقوف نہیں بڑے بڑے رفارمر اس شائبہ سے خالی نہیں ہوتے تھے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کسی کاروائی پر فریب اور حکمت عملی کا نقاب نہیں ہوتا تھا۔ وہ جو کچھ کرتے تھے علانیہ کرتے تھے۔ اور لوگوں کو صاف صاف اس کی مصلحت سے واقف کر دیتے تھے۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معزول کیا تو تمام اضلاع میں فرمان بھیج دیا کہ ؛ انی لم اعزل خالد اعن سخطۃ ولا خیانۃ ولکن الناس فتنوابہ فخفت ان یو کلوا الیہ۔ یعنی " میں نے خالد کو ناراضی یا خیانت کے جرم میں نہیں موقوف کیا بلکہ اس وجہ سے کہ لوگ ان کی طرف زیادہ مائل ہوتے تھے تھے اس لئے میں ڈرا کہ ان پر بھروسہ نہ کر لیں۔ " مثنیٰ کی معزولی کے وقت بھی ایسے ہی خیالات ظاہر کئے اور فرمایا : لم اعزلھما عن ربیۃ ولکن الناس عظمو ھمافخشیت ان یو کلوا الیھما۔ (طبری صفحہ 2538)۔