الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کروں گا۔ جب وہ زر معینہ ادا کر دیتا ہے تو وہ بالکل آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ قاعدہ خود قرآن میں موجود ہے۔ فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیراً لیکن فقہاء اس حکم کو وجوبی نہیں قرار دیتے۔ یعنی آقا کو اختیار ہے کہ معاہدے کو قبول کرے یا نہ کرے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو وجوبی قرار دی۔ صحیح بخاری کتاب المکاتب میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام سیرین نے مکاتبت کی درخواست کی۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا۔ سیرین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو درے لگائے۔ اور مذکورہ بالا آیت سند میں پیش کی۔ آخر انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مجبوراً ماننا پڑا۔ عام طور پر یہ مشہور ہے کہ جب فارس فتح ہوا تو یزد گرد شہنشاہ فارس کی بیٹیاں گرفتار ہو کر مدینہ میں آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عام لونڈیوں کی طرح بازار میں ان کے بیچنے کا حکم دیا لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منع کیا کہ خاندان شاہی کے ساتھ ایسا سلوک جائز نہیں۔ ان لڑکیوں کی قیمت کا اندازہ کرایا جائے۔ پھر یہ لڑکیاں کسی کے اہتمام اور سپردگی میں دی جائیں، اور اس سے ان کی قیمت اعلیٰ سے اعلیٰ شرح پر لی جائے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود ان کو اپنے اہتمام میں لیا اور ایک امین کو، ایک محمد بن ابی بکر کو، ایک عبد اللہ بند عمر رضی اللہ تعالیٰ کو عنایت کی۔ ربیع الابرار میں اس کو لکھا اور ابن خلقان نے امام زین العابدین کے حال میں یہ روایت اس کے حوالہ سے نقل کر دی لیکن یہ محض غلط ہے۔ اولاً توز مخشری کے سوا طبری ابن الاثیر، یعقوبی، بلاذری، ابن قتیبہ وغیرہ کسی نے اس واقعہ کو نہیں لکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں یزدگر اور خاندان شاہی پر مسلمانوں کو مطلق قابو نہیں ہوا۔ مدائن کے معرکے میں یزدگرد مع تمام اہل و عیال کے دارالسلطنت سے نکلا اور حلوان پہنچا۔ جب مسلمان حلوان پر بڑھے تو اصفہان بھاگ گیا اور پھر کرمان وغیرہ میں پھرتا رہا۔ مرو میں پہنچ کر سنہ 30 ہجری میں جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ ہے مارا گیا۔ اس کی آل اولاد اگر گرفتار ہوئے ہوں گے تو اسی وقت گرفتار ہوئے ہوں گے۔ مجھ کو شبہ ہے کہ زمخشری کو یہ بھی معلوم تھا یا نہیں کہ یزدگرد کا قتل کس عہد میں ہوا۔ اس کے علاوہ جس وقت کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے اس وقت حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر 12 برس تھی۔ کیونکہ جناب ممدوح ہجرت کے پانچویں سال کے بعد پیدا ہوئے اور فارس سنہ 17 ہجری میں فتح ہوا۔ اس لیے یہ امر بھی کسی قدر مستبعد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی نابالغی میں ان پر اس قسم کی عنایت کی ہو گی۔ اس کے علاوہ ایک شہنشاہ کی اولاد کی قیمت نہایت گراں قرار پائی ہو گی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت زاہدانہ اور فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے ، غرضیکہ کسی حیثیت سے اس واقعہ کی صحت کا گمان تک نہیں ہو سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ