الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یعنی عرب کا کوئی آدمی غلام نہیں ہو سکتا (کنز العمال میں امام شافعی کی روایت سے یہ قول منقول ہے۔ دیکھو کتاب مذکور صفحہ 312، جلد دوم)۔ اگرچہ بہت سے مجتہدین اور ائمہ فن نے ان کے اس اصول کو تسلیم نہیں کیا۔ امام احمد حنبل کا قول ہے لا اذھب الی قول عمر لیس علی عربی ملک یعنی میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ رائے نہیں مانتا کہ اہل عرب غلام نہیں ہو سکتے لیکن یہ موقع اس مسئلہ پر بحث کرنے کا نہیں۔ یہاں صرف یہ بیان کرنا ہے کہ عرب کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ یہ تھا (منتقی الاخبار لابن تیمیہ)۔ غیر قوموں کی نسبت وہ کوئی قاعدہ عام نہیں قائم کر سکے۔ جب کوئی ملک فتح ہوتا تھا تو اہل فوج ہمیشہ اصرار کرتے تھے کہ ملک کے ساتھ تمام رعایا ان کی غلامی میں دے دی جائے۔ ملک کی تقسیم میں تو جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن مجید کے استدلال سے لوگوں کی زبان بندی کی لیکن غلامی کے لیے کوئی ایسا استدلال موجود نہ تھا۔ اس لیے وہ تمام اہل فوج کے خلاف نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم اتنا کیا کہ عملاً غلامی کو نہایت کم کر دیا۔ جس قدر ممالک ان کے زمانے میں فتح ہوئے ان کی وسعت کئی ہزار میل تھی جس میں کروڑوں آدمی بستے تھے ، لیکن غلامی کا جہاں جہاں پتہ چلتا تھا وہ نہایت محدود اور گنتی کے ہیں جو بجائے خود مستقل مملکتیں ہیں۔ باوجود فوج کے اصرار کے ایک شخص بھی غلام نہیں بنایا گیا۔ یہاں تک کہ جب مصر کے بعض دیہات کے آدمی جو مسلمانوں سے لڑے تھے غلام بنا کر عرب میں بھیج دیئے گئے ، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب کو جا بجا سے جمع کر کے مصر واپس بھیج دیا کہ ان کو غلام بنانا جائز نہ تھا۔ چنانچہ مؤرخ مقریزی نے ان دیہات کے نام اور اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے۔ شام کے شہروں میں بصریٰ، محل، طبریہ، دمشق، حمص، حمدان، عسقلان، انطاکیہ وغیرہ جہاں عیسائی بڑے زور و شور سے لڑے ، غلامی کا بہت کم پتہ چلتا ہے۔ شاید شام میں صرف قیساریہ ایک جگہ ہے جہاں اسیران جنگ غلام بنائے گئے۔ فارس، خورستان، کرمان، جزیرہ وغیرہ میں کود معاہدہ صلح میں یہ الفاظ لکھ دیئے گے تھے کہ لوگوں کے جان و مال سے تعرض نہ ہو گا۔ صامغان، جندی، سابور، شیراز وغیرہ میں اس سے زیادہ صاف الفاظ تھے کہ لا یس بوا یعنی وہ لوگ گرفتار ہو کر لونڈی غلام نہ بنائے جائیں گے۔ مناذر میں باوجود اس کے کہ فوج نے اسیران جنگ کو غلام بنا کر ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم پہنچا کہ ان کو چھوڑ دو۔ اور خراج و جزیہ مقرر کر دو۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ حکم بھیجا کہ کوئی کاشتکار یا پیشہ ور غلام نہ بنایا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اور طریقہ سے بھی اس رواج کو گھٹیا۔ یعنی یہ قاعدہ بنا دیا کہ جس لونڈی سے اولاد ہو جائے وہ خریدی اور بیچی نہیں جا سکتی جس کا حاصل یہ ہے کہ وہ لونڈی نہیں رہتی۔ یہ قاعدہ خاص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایجاد ہے۔ ان سے پہلے اس قسم کی لونڈیوں کی برابر خرید و فروخت ہوتی تھی۔ چنانچہ مؤرخین نے محدثین نے جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اولیات لکھے ہیں، اس قاعدے کو بھی لکھا ہے۔ غلاموں کی آزادی کا ایک اور طریقہ تھا۔ جس کو مکاتبہ کہتے ہیں یعنی غلام ایک معاہدہ لکھ دے کہ میں اتنی مدت میں اس قدر رقم ادا