الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان کی شرارتیں بیان کیں۔ اور پھر ان کو عرب سے نکال دیا۔ چنانچہ صحیح بخاری، کتاب الشروط میں یہ واقعہ کسی قدر تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ نجران کے عیسائی یمن اور اس کے اطراف میں رہتے تھے۔ اور ان سے کچھ تعرض نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے چپکے چپکے جنگی تیاریاں شروع کیں۔ اور بہت سے گھوڑے اور ہتھیار مہیا کئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف اس وقت ان کو حکم دیا کہ یمن چھوڑ کر عراق چلے جائیں۔ (کتاب الخراج صفحہ 42)۔ غرض یہ امر تمام شہادتوں سے قطعاً ثابت ہے کہ عیسائی اور یہودی پولیٹیکل ضرورتوں کی وجہ سے جلاوطن کئے گئے اور اس وجہ سے یہ امر کسی طرح اعتراض کے قابل نہیں ہو سکتا۔ البتہ لحاظ کے قابل یہ بات ہے کہ اس حالت میں بھی کس قسم کی رعایت ان کے ساتھ ملحوظ رکھی گئی۔ فدک کے یہودی جب نکالے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک واقف کار شخص کو بھیجا کہ ان کی زمین اور باغوں کے قیمت کا تخمینہ کرے۔ چنانچہ متعینہ قیمت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال سے ان کو دلوا دی۔ اسی طرح حجاز کے یہودیوں کو بھی ان کی زمین کی قیمت دلا دی۔ (فتوح البلدان صفحہ 29)۔ نجران کے عیسائیوں کو جب عرب کی آبادی سے نکال کر شام و عراق میں آباد کیا تو ان کے ساتھ نہایت فیاضانہ رعایتیں کیں۔ ان کو امن کا جو پروانہ دی اس میں یہ شرطیں لکھیں۔ 1 – عراق یا شام جہاں بھی یہ لوگ جائیں وہاں کے افسر ان کی آبادی اور زراعت کے لیے ان کو زمین دیں۔ 2 – جس مسلمان کے پاس یہ کوئی فریاد لے کر جائیں وہ ان کی مدد کرے۔ 24 مہینے تک ان سے مطلقاً جزیہ نہ لیا جائے۔ اس معاہدے پر احتیاط اور تاکید کے لحاظ سے بڑے بڑے صحابہ کے دستخط ثبت کرائے۔ چنانچہ قاضی ابو یوسف صاحب نے کتاب الخراج میں اس معاہدے کو بالفاظہا نقل کیا ہے۔ (کتاب مذکور صفحہ 41)۔ ایک ایسی قوم جس کی نسبت بغاوت اور سازش کے ثبوت موجود ہوں، اس کے ساتھ اس سے بڑھ کر اور کیا رعایت کی جا سکتی ہے۔ اب صرف جزیہ کا معاملہ رہ جاتا ہے۔ ہن نے اس بحث پر اگرچہ ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور وہ تینوں زبانوں (اردو، عربی، انگریزی) میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے تاہم مختصر طور پر یہاں بھی لکھنا ضروری ہے۔