الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نکلے تو یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا، کہ جب تک ہم زندہ ہیں کبھی رومی یہاں نہ آنے پائیں گے۔ عیسائیوں نے نہایت حسرت سے کہا کہ " خدا کی قسم تم رومیوں کی نسبت کہیں بڑھ کر ہم کو محبوب ہو۔ " اخیر میں ہم کو ان واقعات کی حقیقت بھی بتانا ضروری ہے جن کی وجہ سے لوگوں کو یہ غلط خیال پیدا ہوا ہے یا ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر نے یا خود اسلام نے ذمیوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کئے۔ مخالف کی طرف سے اعتراض کی تقریر اس مسئلے کو مخالف اس طرح بیان کر سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذمیوں کے حق میں یہ حکم دیا کہ وضع اور لباس وغیرہ میں کسی طرح مسلمانوں کی تشبہ نہ کرنے پائیں۔ کمر میں زنار باندھیں۔ لمبی لمبی ٹوپیاں پہنیں۔ گھوڑوں پر کاٹھی نہ کسیں۔ نئی عبادت گاہیں نہ بنائیں، شراب اور سور نہ بیچیں، ناقوس نہ بجائیں۔ صلیب نہ نکالیں۔ بنو تغلب کو یہ بھی حکم تھا کہ اپنی اولاد کو اصطباغ نہ دینے پائیں۔ اس سب باتوں پر یہ مستزاد کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرب کی وسیع آبادی میں ایک یہودی یا عیسائی کو نہ رہنے دیا اور بڑے بڑے قدیم خاندان جو سینکڑوں برس سے عرب میں آباد تھے ، جلا وطن کر دیئے۔ بے شبہ یہ اعتراضات نہایت توجہ کے حامل ہیں اور ہم ان کے جواب دینے میں کسی قدر تفصیل سے کام لیں گے۔ کیونکہ ایک زمانہ دراز کے تعصب اور تقلید نے واقعیت کے چہرے پر بہت سے پردے ڈال دیئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کو غیر قوموں کی مشابہت اور غیر قوموں کو مسلمانوں کی مشابہت سے روکتے تھے۔ لیکن اس سے فقط قومی خصوصیتوں کو قائم رکھنا مقصود تھا۔ لباس کی بحث میں تحقیق طلب امر یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذمیوں کو جس لباس کی پابندی کی تاکید کی تھی وہی لباس ذمیوں کا قدیم لباس تھا یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی نیا لباس بطور علامت تحقیر کے تجویز کیا تھا۔ جس شخص نے عجم کی تاریخ پڑھی ہے وہ یقیناً جان سکتا ہے کہ جس لباس کا یہاں ذکر ہے وہ عجم کا قدیم لباس تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معاہدہ کنز العمال وغیرہ میں نقل کیا گیا ہے۔ اگرچہ راویوں نے اس کو بہت کچھ کم و بیش کر دیا ہے۔ تاہم جہاں ذمیوں کی طرف سے یہ اقرار مذکور ہے کہ ہم فلاں فلاں لباس نہ پہنیں گے ، وہاں یہ الفاظ بھی ہیں " و ان نلزم زینا حیث ما کنا (کنز العمال جلد 2 صفحہ 302) یعنی ہم وہی لباس پہنیں گے جو ہمیشہ سے پہنتے آئے ہیں۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ جس لباس کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا وہ عجم کا قدیم لباس تھا۔ زنار جس کا ذکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان میں ہے اس کی نسبت ہمارے فقہاء نے اکثر غلطیاں کی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ انگلی برابر موٹا ایک قسم کا جنیو ہوتا تھا اور اس سے ذمیوں کی تحقیر مقصود تھی لیکن یہ سخت غلطی ہے۔ زنار