الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ھذا ما اعطیٰ عبد اللہ عمر امیر المومنین اھل ایلیا من الامان اعطاھم امانالانفسھم واموالھم ولکنائسھم وصلبانھم وسقیمھا بریھا وسائر ملتھاانہ لایسکن کنائسھم ولاتھدم ولاینقض منھا ولا من حیز ھاولا من صلبھم ولا کن شئی من اموالھم ولا یکرھون علی دینھم ولا یضارا حد من الیھود و علی اھل ایلیاء ان یعطوا الجزیۃ کما یعطی اھل المدائن و علیھم ان یخرجوا منھا الروم واللصوص فمن خرج منھم فھوا من علی نفسہ ومالہ حتی یبلغوا ما منھم ومن اقام منھم فھوا من و علیہ مثل اھلا ایلیاء من الجزیۃ و من احب من اھل ایلیاء ان یسیر بنفسہ ومالہ مع الروم و یخلی بیعھم و صلبھم فانھم آمنون علی انفسھم و علی بینعھم و صلبھم حتی یبلغوا ما منھم و علی مافی ھذا الکتاب عدھ اللہ و ذمۃ رسولہ و ذمۃ الخلفاء و ذمۃ الکومنین اذا اعطو الذی علیھم من الجزیۃ شھد علی ذلک خالد بن الولید و عمر بن العاص و عبد الرحمان بن عوف و معاویۃ ابی سفیان و کتب و حضر سنہ 15 ہجری۔ (دیکھو تاریخ ابو جعفر جریر طبری – فتح بیت المقدس 12)۔ "یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیر المومنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے اس طرح پر کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کا جائے گی۔ نہ وہ ڈھائے جائیں گے نہ ان کو اور نہ ان کے احاطہ کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا۔ نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ایلیاء میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے۔ ایلیاء والوں پر یہ فرض ہے کہ اور شہروں کی طرح جزیہ دیں گے اور یونانیوں اور چوروں کو نکال دیں۔ ان یونانیوں میں سے جو شہر سے نکلے گا اس کی جان اور مال کو امن ہے تا آ کہ وہ اپنی جائے پناہ میں پہنچ جائے اور جو ایلیاء ہی میں رہنا اختیار کرے اس کو بھی امن ہے اور اس کو جزیہ دینا ہو گا اور ایلیاء والوں میں سے جو شخص اپنی جان اور مال لے کو یونانیوں کے ساتھ چلا جانا چاہے تو ان کو اور ان کے گرجاؤں کو اور صلیبوں کو امن ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائیں اور جو کچھ اس تحریر میں ہے اس پر خدا کا رسول خدا کے خلیفہ کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے۔ بشرطیکہ یہ لوگ جزئیہ مقررہ ادا کرتے رہیں۔ اس تحریر پر گواہ ہیں خالد بن الولید اور عمرو العاص اور عبد الرحمنٰ بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور یہ 15 ہجری میں لکھا گیا۔ " اس فرمان میں صاف تصریح ہے کہ عیسائیوں کے جان، مال اور مذہب ہر طرح سے محفوظ رہے گا اور یہ ظاہر ہے کہ کسی قوم کو جس قدر حقوق حاصل ہو سکتے ہیں انہی تین چیزوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ گرجے اور چرچ کی نسبت یہ تفصیل ہے کہ نہ تو وہ توڑے جائیں گے نہ ان کی عمارت کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا جائے گا نہ ان کے احاطوں میں دست اندازی کی جائے گی۔