الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شطا مصر کا ایک مشہور شہر ہے جہاں کے کپڑے مشہور ہیں۔ یہاں کا رئیس مسلمانوں کے حالات سن کر پہلے ہی اسلام کی طرف مائل تھا۔ چنانچہ جب اسلامی فوجیں دمیاط میں پہنچیں تو دو ہزار آدمیوں کے ساتھ شطا سے نکل کر مسلمانوں سے آ ملا۔ اور مسلمان ہو گیا۔ (مقریزی جلد اول)۔ فسطاط جس کو عمرو بن العاص نے آباد کیا تھا اور جس کی جگہ اب قاہرہ دارالسلطنت ہے یہاں تین بڑے بڑے محلے تھے جہاں زیادہ تر نومسلم آباد کرائے گئے۔ ایک محلہ بنو نبہ کے نام سے آباد تھا جو ایک یونانی خاندان تھا، مسلمان ہو گیا تھا۔ اور مصر کے معرکے میں اس خاندان کے سو آدمی اسلامی فوج کے ساتھ شامل تھے۔ دوسرا محلہ بنو الارزق کے نام پر تھا یہ بھی ایک یونانی خاندان تھا اور اس قدر کثیر النسل تھا کہ مصر کی جنگ میں اس خاندان کے 400 بہادر شریک تھے۔ تیسرا محلہ ربیل کے نام سے آباد تھا۔ یہ لوگ پہلے یرموک و قیساریہ میں سکونت رکھتے تھے۔ پھر مسلمان ہو کر عمرو بن العاص کے ساتھ مصر چلے آئے تھے۔ یہ ایک بہت بڑا یہودی خاندان تھا۔ مصر کی فتح میں ہزار آدمی اس خاندان کے شامل تھے۔ (اس کے متعلق پوری تفصیل مقریزی صفحہ 298 جلد اول میں ہے )۔ فسطاط میں ایک اور محلہ تھا جہاں صرف نو مسلم مجوسی آباد کرائے گئے تھے۔ چنانچہ یہ محلہ انہی کے نام پر پارسیوں کا محلہ کہلاتا تھا۔ یہ لوگ اصل میں باذان کی فوج کے آدمی تھے جو نوشیرواں کی طرف سے یمن کا عامل تھا جب اسلام کا قدم شام میں پہنچا تو یہ لوگ مسلمان ہو گئے اور عمرو بن العاص کے ساتھ مصر ائے۔ اسی طرح اور جستہ جستہ مقامات سے پتہ چلتا ہے کہ ہر جگہ کثرت سے اسلام پھیل گیا تھا۔ مؤرخ بلاذری نے بالس کے ذکر میں لکھا ہے کہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں وہ عرب آباد کرائے جو شام میں سکونت رکھتے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے۔ (بلاذری صفحہ 150)۔ مؤرخ ازدی جنگ یرموک کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب رومیوں کی فوجیں یرموک میں اتریں تو وہ لوگ جاسوس بنا کر بھیجے جاتے تھے جو وہیں کے رہنے والے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے۔ ان لوگوں کو تاکید تھی کہ اپنا اسلام ظاہر نہ کریں تا کہ رومی ان سے بدگمان نہ ہونے پائیں۔ مؤرخ نے سن 14 ہجری کے واقعات میں لکھا ہے کہ اس لڑائی میں بہت سے اہل عجم نے مسلمانوں کو مدد دی جن میں سے کچھ لڑائی سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے تھے اور کچھ لڑائی کے بعد اسلام لائے۔ ان واقعات سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک عہد میں اسلام کثرت سے پھیلا اور تلوار سے نہیں بلکہ اپنے فیض و برکت سے پھیلا۔ اشاعت اسلام کے بعد اصول مذہب، اعمال مذہبی کی ترویج یعنی جن چیزوں پر اسلام کا دارومدار ہے ان کا محفوظ رکھنا اور ان کی اشاعت اور ترویج کرنا۔ اس سلسلے میں سب سے مقدم قرآن مجید کی حفاظت اور اس کی تعلیم و ترویج تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق جو کوششیں کیں ان کی نسبت شاہ ولی اللہ صاحب نے نہایت صحیح لکھا کہ " امروز ہر کہ قرآن میخواند از طوائف مسلمین، منت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ در گردن اوست۔ "