الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جس قدر آدمی درج رجسٹر ہوئے (اس موقع پر ایک امر نہایت توجہ کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے ظاہر بینوں کا خیال ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام عرب کی جو تنخواہیں مقرر کیں اس کو فوجی صیغے سے چنداں تعلق نہیں بلکہ یہ رفاہ عام کی غرض سے تھا لیکن یہ نہایت غلط خیال ہے۔ اولاً جہاں مؤرخوں نے اس واقعہ کا شان نزول بیان کیا ہے لکھا ہے کہ ولید بن ہشام نے حضرت عمر سے کہا کہ قد ذھبت الشام فرائیت ملوکھا تدو نوادیواناً و جندوا جنداً فدون دیوانا و جند جندا فاخذ بقولہ۔ یعنی میں نے شام کے بادشاہوں کو دیکھا کہ وہ دفتر اور فوج رکھتے ہیں آپ بھی دفتر بنائے اور فوج مرتب کیجئے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ولید کے قول پر عمل کیا۔ دوسرے یہ کہ جن لوگوں سے جنگی خدمت نہیں لی جاتی تھی اور قدیم جنگی خدمتوں کا استحقاق بھی نہیں رکھتے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی تنخواہ نہیں مقرر کرتے تھے اسی بناء پر مکہ کے لوگوں کو تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ فتوح البلدان میں ہے ان عمر کان لایعطی اھل مکۃ عطاء ولا یضرب علیھم بعث فتوح صفحہ 458۔ یہی وجہ تھی کہ جب صحرا نشین بدوؤں نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تنخواہ کی تقرری کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک آبادی میں رہنے والوں کی تنخواہیں مقرر نہ ہو جائیں۔ صحرا نشینوں کا روزینہ نہیں مقرر ہو سکتا۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ اول اول فوج کے رجسٹر میں اور بھی بہت سی قسم کے لوگ شامل تھے مثلاً جو لوگ قرآن مجید حفظ کر لیتے تھے یا کسی فن میں صاحبِ کمال تھے۔ لیکن استقراء سے معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ یہ غلط مبحث جو بضرورت اختیار کیا گیا تھا مٹتا گیا چنانچہ اس مضمون میں آگے اس کی بحث آتی ہے۔ ) اگرچہ سب درحقیقت فوج کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن ان کی دو قسمیں قرار دی گئیں۔ (1) جو ہر وقت جنگی مہمات میں مصروف رہتے تھے گویا یہ فوج نظام یعنی باقاعدہ فوج تھی۔ (2) جو معمولاً اپنے گھروں میں رہتے تھے۔ لیکن ضرورت کے وقت طلب کئے جا سکتے تھے۔ ان کو عربی میں مطوعۃ کہتے ہیں اور آج کل کی اصلاح میں اس قسم کی فوج کو والنٹیر کہا جاتا ہے۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ آج کل والنٹیر تنخواہ نہیں پاتے۔ فوجی نظم و نسق کا یہ پہلا دیباچہ تھا اور اس وجہ سے اس میں بعض بے ترتیبیاں بھی تھیں۔ سب سے بڑا خلط مبحث یہ تھا کہ تنخواہوں کے ساتھ پولٹیکل تنخواہیں بھی شامل تھیں اور ان دونوں کا ایک ہی رجسٹر تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ یعنی 21 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس صیغے کو اس قدر مرتب اور منظم کر دیا کہ غالباً اس عہد تک کہیں اور کبھی نہیں ہوا تھا۔