الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بری و بحری دونوں حیثیت رکھتی ہو۔ چنانچہ سلمان و حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جو خالص اسی قسم کے کاموں پر مامور تھے۔ کوفہ کی زمین انتخاب کی۔ یہاں کی زمین ریتلی اور کنکریلی تھی اور اسی وجہ سے اس کا نام کوفہ رکھا گیا۔ اسلام سے پہلے نعمان بن منذر کا خاندان جو عراق عرب کا فرمانروا تھا۔ ان کا پائے تخت یہی مقام تھا اور ان کی مشہور عمارتیں خورنق اور سدیر وغیرہ اسی کے آس پاس واقع تھیں۔ منظر نہایت خوشنما اور دریائے فرات سے صرف ڈیڑھ دو میل کا فاصلہ تھا۔ اہل عرب اس مقام کو حد العذار یعنی عارض محبوب کہتے تھے کیونکہ وہ مختلف عمدہ قسم کے عربی پھولوں مثلاً اقحوان، شقایق، فیصوم، خزامی کا چمن زار تھا۔ غرض 17 ہجری میں اس کی بنیاد شروع ہوئی اور جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تصریح کے ساتھ لکھا تھا۔ 40 ہزار آدمیوں کی آبادی کے قابل مکانات بنائے گئے۔ ہیاج بن بالک کے اہتمام سے عرب کے جدا جدا قبیلے محلوں میں آباد ہوئے شہر کی وضع اور ساخت کے متعلق خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تحریری حکم ایا تھا کہ شارع ہائے عام 40، 40 ہاتھ اور اس سے گھٹ کر 30۔ 30 ہاتھ اور 20۔ 20 ہاتھ چوڑی رکھی جائیں اور گلیاں 7۔ 7 ہاتھ چوڑی ہوں۔ جامع مسجد کی عمارت جو ایک مربع بلند چبوترہ دے کر بنائی گئی اس قدر وسیع تھی، اس میں 40 ہزار آدمی آ سکتے تھے۔ اس کے ہر چہار طرف دور دور تک زمین کھلی چھوڑ دی گئی تھی۔ عمارتیں اول گھاس پھونس کی بنیں لیکن جب آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت دی اور اینٹ گارے کی عمارتیں تیار ہوئیں اور جامع مسجد کے آگے ایک وسیع سائبان بنا دیا گیا جو دو سو ہاتھ لمبا تھا۔ اور سنگ رخام کے ستونوں پر قائم کیا گیا تھا۔ جو نوشیروانی عمارت سے نکال کر لائے گئے تھے۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ باوجود اس کے کہ دراصل نوشیروانی عمارت کا کوئی وارث نہ تھا۔ اور اصول سلطنت کے لحاظ سے اگر کوئی وارث ہو سکتا تھا تو خلیفہ وقت ہوتا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عدل و انصاف تھا کہ مجوسی رعایا کو ان ستونوں کی قیمت ادا کی تئی۔ یعنی ان کی تخمینی جو قیمت ٹھہری وہ ان کے جزیہ میں مجرا کی گئی۔ مسجد سے دو سو ہاتھ کے فاصلے پر ایوان حکومت تعمیر ہوا۔ جس میں بیت المال یعنی خزانے کا مکان شامل تھا۔ ایک مہمان خانہ بھی تعمیر کیا گیا۔ جس میں باہر کے آئے ہوئے مسافر قیام کرتے تھے اور ان کو بیت المال سے کھانا ملتا تھا۔ چند روز کے بعد بیت المال میں چوری ہو گئی۔ اور چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر ہر جزئی واقعہ کی خبر پہنچتی تھی، انہوں نے سعد کو لکھا کہ ایوان حکومت مسجد سے ملا دیا جائے چنانچہ روزبہ نامی ایک پارسی معمار نے جو مشہور استاد تھا، اور تعمیرات کے کام پر مامور تھا، نہایت خوبی اور موزونی سے ایوان حکومت کی عمارت کر بڑھا کر مسجد سے ملا دیا۔ سعد نے روزبہ کو معہ اور کاریگروں کے اس صلے میں دربار خلافت روانہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی بڑی قدردانی کی اور ہمیشہ کے لیے روزینہ مقرر کر دیا۔ جامع مسجد کے سوا ہر ہر قبیلے کے لیے جدا جدا مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ جو قبیلے آباد کئے گئے ان میں یمن کے بارہ ہزار اور نزار کے آٹھ ہزار آدمی تھے۔ اور قبائل جو آباد کئے گئے ، ان کے نام حسبِ ذیل ہیں۔ سلیم،