الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جس کی یہ وجہ نہیں کہ حدیث کی طرح اس کے لئے قطعی روایتیں موجود ہیں۔ بلکہ اس لئے کہ وہ انتظامات مدت تک قائم رہے۔ اور اکبر کے نام سے ان کو شہرت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبے اور حکمت آمیز مقولے جو منقول ہیں ان کی نسبت یہ قیاس کرنا چاہیے کہ جو فقرے زیادہ تر پر اثر اور فصیح و بلیغ ہیں وہ ضرور صحیح ہیں۔ کیونکہ ایک فصیح مقرر کے وہ فقرے ضرور محفوظ رہ جاتے ہیں اور ان کا مدت تک چرچا رہتا ہے۔ جن میں کوئی خاص قدرت اور اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح خطبوں کے وہ جملے ضرور قابل اعتماد ہیں جن میں احکام شرعیہ کا بیان ہے۔ کیونکہ اس قسم کی باتوں کو لوگ فقہ کی حیثیت سے محفوظ رکھتے ہیں۔ جو واقعات اس زمانے کے مذاق کے لحاظ سے چنداں قابل ذکر نہ تھے اور باوجود اس کے ان کا ذکر آ جاتا ہے ، ان کی نسبت سمجھنا چاہیے کہ اصل واقعہ اس سے زیادہ ہو گا۔ مثلاً ہمارے مؤرخین رزم بزم کی معرکہ آرائیوں اور رنگینیوں کے مقابلے میں انتظامی امور کے بیان کرنے کے بالکل عادی نہیں ہیں۔ باایں ہمہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حال میں عدالت، پولیس، بندوبست، مردم شماری وغیرہ کا ضمناً جو ذکر آ جاتا ہے اس کی نسبت یہ خیال کرنا چاہیے کہ جس قدر قلمبند ہوا اس سے بہت زیادہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زہد و تقشف، سخت مزاجی اور سخت گیری کی نسبت سینکڑوں روایتیں مذکور ہیں۔ اور بے شبہ اور صحابہ کی نسبت یہ اوصاف ان میں زیادہ تھے لیکن اس کے متعلق تمام روایتوں کو صحیح نہیں خیال کرنا چاہیے۔ جو حلیۃ الاولیاء ابن عساکر، کنز العمال، ریاض النضرۃ وغیرہ میں مذکور ہیں۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ چونکہ اس قسم کی روایتیں عموماً گرمی محفل کا سبب ہوتی تھیں۔ اور عوام ان کو نہایت ذوق سے سنتے تھے۔ اس لئے خود بخود ان میں مبالغہ کا رنگ آتا گیا ہے۔ اس کی تصدیق اس سے ہوتی ہے کہ جو کتابیں زیادہ مستند اور معتبر ہیں ان میں یہ روایتیں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ اسی لئے میں نے اس قسم کی جو روایتیں اپنی کتاب میں نقل کی ہیں ان میں بڑی احتیاط کی ہے اور " ریاض الضرہ" و ابن عساکر و حلیۃ الاولیاء وغیرہ کی روایتوں کو بالکل نظر انداز کیا ہے۔ اخیر میں طرز تحریر کے متعلق کچھ لکھنا بھی ضروری ہے۔ آج کل کی اعلیٰ درجہ کی تاریخیں جنہوں نے قبول عام حاصل کیا ہے۔ فلسفہ اور انشاء پردازی سے مرکب ہیں۔ اور اس طرز سے بڑھ کر اور کوئی طرز مقبول عام نہیں ہو سکتا۔ لیکن درحقیقت تاریخ اور انشاء پردازی کی حدیں بالکل جدا جدا ہیں۔ ان دونوں میں جو فرق ہے وہ نقشہ اور تصویر کی فرق سے مشابہ ہے۔ نقشہ کھینچنے والے کا یہ کام ہے کسی حصہ زمین کا نقشہ کھنچے تو نہایت دریدہ ریزی کے ساتھ اس کی ہیئت، شکل، سمت، جہت، اطراف، اضلاع ایک ایک چیز کا احاطہ کرے۔ بخلاف اس ے مصور صرف ان خصوصیتوں کو لے گا یا ان کو زیادہ نمایاں صورت میں دکھلائے گا جن میں کوئی خاص اعجوبگی ہے۔ اور جن سے انسان کی قوت مضحکہ پر اثر پڑتا ہے۔ مثلاً رستم و سہراب کی داستان کو ایک مؤرخ لکھے گا تو سادہ طور پر واقعہ کی تمام جزئیات بیان کر دے گا۔ لیکن ایک انشاء پرداز ان جزئیات کو اس