الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ تمام تصنیفات میرے پیش نظر ہیں اور میں نے ان سے فائدہ اُٹھایا ہے ریاض الضرۃ للمحب الطبری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات تفصیل سے ملتے ہیں اور شاہ ولی اللہ صاحب نے اسی کتاب کو اپنا ماخذ قرار دیا ہے۔ لیکن اس میں نہایت کثرت سے موضوع اور ضعیف روایتیں مذکور ہیں۔ اس لیے میں نے دانستہ اس سے احتراز کیا۔ واقعات کی تحقیق و تنقید کے لیے درایت کے اصول سے بہت بڑی مدد مل سکتی ہے۔ درایت کا فن ایک مستقل فن بن گیا ہے۔ اور اس کے اصول و قاعدے نہایت خوبی سے منضبط ہو گئے ہیں۔ ان میں سے جو اصول ہمارے کام آ سکتے ہیں حسب ذیل ہیں۔ (۱) واقعہ مذکور اصول عادت کی رو سے ممکن ہے یا نہیں؟ (۲) اس زمانے میں لوگوں کا میلان عام واقعہ کے مخالف تھا یا موافق؟ (۳) واقعہ اگر کسی حد تک غیر معمولی ہے تو اسی نسبت سے ثبوت کی شہادت زیادہ قوی ہے یا نہیں؟ (۴) اس امر کی تفتیش کہ راوی جس چیز کو واقعہ ظاہر کرتا ہے اس میں اس کی قیاس و رائے کا کس قدر حصہ شامل ہے ؟ (۵) راوی نے واقعہ کو جس صورت میں ظاہر کیا وہ واقعہ کی پوری تصویر ہے یا اس امر کا احتمال ہے کہ راوی اس کے ہر پہلو پر نظر نہیں ڈال سکا۔ اور واقعہ کی تمام خصوصیتیں نظر میں نہ آ سکیں۔ (۶) اس بات کا اندازہ کہ زمانے کے امتداد اور مختلف راویوں کے طریقہ ادا نے روایت میں کیا کیا اور کس کس قسم کے تغیرات پیدا کر دیئے ہیں۔ ان اصولوں کی صحت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اور ان کے ذریعے سے بہت سے مخفی راز معلوم ہو سکتے ہیں۔ مثلاً آج جس قدر تاریخیں متداول ہیں، ان میں غیر قوموں کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نہایت سخت احکام منقول ہیں۔ لیکن جب اس بات پر لحاظ کیا جائے کہ یہ اس زمانے کی تصحیحیں ہیں جب اسلامی گروہ میں تعصب کا مذاق پیدا ہو گیا تھا اور اسی کے ساتھ قدیم زمانہ کی تصنیفات پر نظر ڈالی جائے جن میں اس قسم کے واقعات بالکل نہیں یا بہت کم ہیں۔ تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر تعصب آتا گیا اسی قدر روایتیں خود بخود تعصب کے سانچے میں ڈھلتی گئی ہیں۔