الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان الاخبار اذا اعتمد فیھا علی مجرد النقل لم تحکم اصول العادۃ و قواعد السیاسۃ و طبیعۃ العمر ان و الا حوال فی الاجتماع الانسانی و لا قیس الغائب منھا بالشاھدو الحاضر بالذاھب فیھا لم یؤمن فیھا من العثور۔ "خبروں میں اگر صرف روایت پر اعتبار کر لیا جائے اور عادات کے اصول اور سیاست کے قواعد اور انسانی سوسائٹی کے اقتضا کا لحاظ اچھی طرح نہ کیا جائے اور غائب کو حاضر پر، اور حال کو گزشتہ پر نہ قیاس کیا جائے تو اکثر لغزش ہو گی۔ " علامہ موصوف نے تصریح کی ہے کہ واقعہ کی تحقیق کے لئے صرف راویوں کی جرح و تعدیل سے بحث نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ واقعہ فی نفسہ ممکن بھی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر واقعہ کا ہونا ممکن ہی نہیں تو راوی کا عادل ہونا بیکار ہے۔ علامہ موصوف نے یہ بھی ظاہر کر دیا ہے کہ موقعوں میں امکان سے امکان عقلی مراد نہیں بلکہ اصول عادت اور قواعد تمدن کی رو سے ممکن ہونا مراد ہے۔ اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ جو نقص قدیم تاریخوں کے متعلق بیان کئے گئے ان کی آج کہاں تک تلافی کی جا سکتی ہے۔ یعنی ہم اپنی کتاب (الفاروق) میں کس حد تک اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ امر بالکل صحیح ہے کہ جو کتابیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات میں مستقل حیثیت سے لکھی گئی ہیں ان میں ہر قسم کے ضروری واقعات نہیں ملتے۔ لیکن اور قسم کے تصنیفوں سے ایک حد تک اس کی تلافی ہو سکتی ہے۔ مثلاً " الاحکام السلطانیہ" لابن الوردی مقدمہ ابن خلدون و کتاب الخراج سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق حکومت اور آئین انتظام کے متعلق بہت سی باتیں معلوم ہو سکتی ہیں۔ اخبار القضاۃ لمحمد بن خلف الوقیع سے خاص صیغۂ قضا کے متعلق ان کا طریق معلوم ہوتا ہے۔ کتاب الاوائل لابی ہلال العسکری و محاسن الوسائل الی الاخبار الاوائل میں ان کی اولیات کی تفصیل ہے۔ عقد الفرید و کتاب البیان والمتبیین للجاحظ میں ان کے خطبے منقول ہیں۔ کتاب العمدۃ لابن رشیق القیر دانی سے ان کا شاعرانہ مذاق معلوم ہوتا ہے۔ میدائنی " کتاب الامثال " میں ان کے حکیمانہ مقولے نقل کئے ہیں۔ ابن جوزی نے " سیرۃ العمرین " میں ان کے اخلاق و عادات کو تفصیل سے لکھا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفاء میں ان کے فقہ اور اجتہاد پر اس مجتہدانہ طریقے سے بحث کی ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ (ان تصنیفات میں سے کتاب الاوائل اور کتاب العمدۃ کا قلمی نسخہ میرے کتب خانہ میں موجود ہے۔ سیرۃ العمرین، اخبار القضاۃ اور محاسن الوسائل کے نسخے قسطنطنیہ کے کتب خانہ میں موجود ہیں اور میں نے ان سے ضروری عبارتیں نقل کر لی تھیں۔ باقی کتابیں چھپ گئی ہیں۔ اور میرے پاس موجود ہیں)۔