الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
امیر معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ (استیعاب قاضی ابن عبد البر و طری صفحہ 2617) زیاد بن سمیعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیاد کے سوا تینوں کو بڑے بڑے ملکی عہدے دیئے اور چونکہ یہ لوگ صاحب ادعا بھی تھے۔ اس لیے اس طرح ان پر قابو رکھا کہ کبھی کسی قسم کی خود سری نہ کرنے پائے۔ زیاد ان کے زمانے میں شانزدہ سالہ نوجوان تھا۔ اس لیے اس کو کوئی بڑا عہدہ نہیں دیا لیکن اس کی قابلیت اور استعداد کی بناء پر ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ کاروبار حکومت میں اس کو مشیر کار بنائیں۔ فن حرب میں عمرو معدی کرب اور طلیحہ بن خالد نہایت ممتاز تھے۔ لیکن تدبیر و سیاست میں ان کو دخل نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں کو نعمان بن مقرن کی ماتحتی میں عراق کی فتوحات پر مامور کیا۔ لیکن نعمان کو لکھ بھیجا کہ ان کو کسی صیغے کی افسری نہ دینا۔ کیونکہ ہر شخص اپنا فن خوب جانتا ہے۔ (استیعاب قاضی ابن عبد البر و طری صفحہ 2617)۔ عبد اللہ بن ارقم ایک معزز صحابی تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہیں سے ایک جواب طلب تحریر آئی۔ آپ نے فرمایا اس کا جواب کون لکھے گا؟ عبد اللہ بن ارقم نے عرض کی کہ " میں " یہ کہہ کر خود اپنی طبیعت سے جواب لکھ کر لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سنا تو نہایت پسند فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے۔ ان کی اس قابلیت پر ان کا خاص خیال ہوا۔ اور جیسا کہ ابن الاثیر وغیرہ نے لکھا ہے یہ اثر ان کے دل میں ہمیشہ قائم رہا۔ یہاں تک کہ جب خلیفہ ہوئے تو ان کو میر منشی مقرر کیا۔ نہاوند کی عظیم الشان مہم کے لیے جب مجلس شوریٰ کا عام اجلاس ہوا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رائے طلب کی کہ اس مہم پر کون بھیجا جائے ؟ تو تمام مجمع نے باتفاق کہا کہ آپ کو جو واقفیت ہے اور آپ نے ایک ایک کی قابلیت کا جس طرح اندازہ کیا ہے کسی نے نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ نعمان بن مقرن کا نام لیا اور سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ " یہ انتخاب بالکل بجا ہے۔ " عمار بن یاسر بڑے رتبے کے صحابی تھے۔ اور زہد و تقویٰ میں بے نظیر تھے۔ لیکن سیاست و تدبیر سے آشنا نہ تھے۔ قبولیت عام اور بعض مصلحتوں کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا۔ لیکن چند روز کے بعد جب ان سے کام چل نہ سکا تو معزول کر دیا اور ان کے طرفداروں کو دکھا دیا کہ وہ اس کام کے لیے موزوں نہ تھے۔ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ جن کا استقصاء نہیں کیا جا سکتا۔ کسی شخص کو شوق ہو تو رجال کی کتابوں سے عرب کے تمام لائق آدمیوں کا پتہ لگائے اور پھر دیکھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان پرزوں کو حکومت کی کل میں کیسے مناسب موقعوں پر لگایا تھا۔ تاہم اتنا بڑا کام صرف ایک شخص کی ذمہ داری پر چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجلس شوریٰ منعقد کی اور صحابہ سے خطاب کر کے کہا کہ " اگر لوگ میری مدد نہ کریں گے تو کون کرے گا۔ (کتاب الخراج صفحہ 165۔ اصل عبارت یہ ہے " ان عمر بن الخطاب دعا اصحاب رسول اللہ فقال اذا لم تعینونی فمن یعسینی الخ۔ ) حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ "ہم آپ کو مدد دیں گے۔ " لیکن اس وقت ملکی انتظام میں حصہ لینا زہد اور تقدس کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " اے عمر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کو دنیا میں آلودہ کرتے ہو۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا " میں ان بزرگوں سے مدد نہ لوں تو کس سے لوں۔