الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طیش میں آیا۔ اگرچہ سلطنت کی حیثیت سے اس کا وہ پہلا رعب و داب باقی نہیں رہا تھا، تاہم تین ہزار برس کا خاندانی اثر دفعتہً نہیں مٹ سکتا تھا۔ ایرانی اس وقت تک یہ سمجھتے تھے کہ عرب کی آندھی سرحدی مقامات تک پہنچ کر رک جائے گی۔ اس لئے ان کو اپنی خاص سلطنت کی طرف سے اطمینان تھا۔ لیکن خوزستان کے واقعہ سے ان کی آنکھیں کھلیں۔ ساتھ ہی شہنشاہ کے فرامین اور نقیب پہنچے ، اس سے دفعتہً طبرستان، جرجان، نہاوند، رے ، اصفہان، ہمدان سے گزر کر خراسان اور سندھ تک تلاطم مچ گیا۔ اور ڈیڑھ لاکھ ٹڈی دل لشکر قم میں آ کر ٹھہرا۔ یزدگرد نے مردان شاہ کو (ہرمز کا فرزند تھا) سر لشکر مقرر کر کے نہاوند کی طرف روانہ کیا۔ اس معرکہ میں درفش کاویانی جس کو عجم طال ظفر سمجھتے تھے۔ مبارک فالی کے لحاظ سے نکالا گیا۔ چنانچہ مردان ساہ جب روانہ ہوا تو اس مبارک علم کا پھریرا اس پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ عمار بن یاسر نے جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان حالات سے اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمار کا خط لئے ہوئے مسجد نبوی میں آئے اور سب کو سنا کے کہا کہ " گروہ عرب اس مرتبہ تمام ایران کمر بستہ ہو کر چلا ہے کہ مسلمانوں کو دنیا سے مٹا دے۔ تم لوگوں کی کیا رائے ہے ؟" طلحہ بن عبید اللہ نے اٹھ کر كہا کہ امیر المومنین! واقعات نے آپ کو تجربہ کار بنا دیا ہے۔ ہم اس کے سوا کچھ نہیں جاتے کہ آپ جو حکم دیں بجا لائیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا " میری رائے ہے کہ شام، یمن، بصرہ کے افسروں کو لکھا جائے کہ اپنی اپنی فوجیں لے کر عراق کو روانہ ہوں اور آپ خود اہل حرم کو لے کر مدینہ سے اٹھیں، کوفہ میں تمام فوجیں آپ کے علم کے نیچے جمع ہوں، اور پھر نہاوند کی طرف رخ کیا جائے۔ حضرت عثمان کی رائے کو سب نے پسند کیا لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ چپ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف دیکھا، وہ بولے کہ "شام اور بصرہ سے فوجیں ہٹیں تو ان مقامات پر سرحد کے دشمنوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اور آپ نے مدینہ چھوڑا تو عز میں قیامت برپا ہو جائے گی۔ اور خود اپنے ملک کا تھامنا مشکل ہو جائے گا۔ میری رائے ہے کہ آپ یہاں سے نہ جائیں۔ اور شام اور یمن، بصرہ وغیرہ میں فرمان بھیج دیئے جائیں کہ جہاں جہاں جس قدر فوجیں ہیں ایک ایک ثلث ادھر روانہ کر دی جائیں۔ " حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میری رائے بھی یہی تھی۔ لیکن تنہا اس کا فیصلہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اب یہ بحث پیش آئی کہ ایسی بڑی مہم میں سپہ سالار بن کر کون جائے۔ لوگ ہر طرف خیال دوڑا رہے تھے۔ لیکن اس درجہ کا کوئی شخص نظر نہیں آتا تھا۔ جو لوگ اس منصب کے قابل تھے وہ اور مہمات میں مصروف تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مراتب کمال میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انہوں نے ملک کے حالات سے ایسی واقفیت حاصل کی تھی کہ قوم کے ایک ایک فرد کے اوصاف ان کی نگاہ میں تھے۔ چنانچہ اس موقع پر حاضرین نے خود کہا کہ اس کا فیصلہ آپ سے بڑھ کر کون کر سکتا ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نعمان بن مقرن کا انتخاب کیا۔ اور سب نے اس کی تائید کی۔ نعمان تیس ہزار کی جمیعت لے کر کوفہ سے روانہ ہوئے۔ اس فوج میں بڑے بڑے صحابہ شامل تھے۔ جن میں سے حذیفہ بن الیمان، عبد اللہ بن عمر، جریر بجلی، مغیرہ بن شعبہ، عمرو معدی کرب زیادہ مشہور ہیں۔ نعمان نے جاسوسوں کو بھیج کر معلوم کیا کہ نہاوند تک راستہ صاف ہے۔ چنانچہ نہاوند تک برابر بڑھتے چلے گئے۔ نہاوند سے 9 میل ادھر اسپدہان