الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی طرح میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔ چنانچہ شہر کے گلی کوچوں سے گزرتا خاص ہرمزان کے محل میں آیا۔ ہرمزان رئیسوں اور درباریوں کے ساتھ جلسہ جمائے بیٹھا ہوا تھا۔ شہری نے ان کو تمام عمارات کی سیر کرائی۔ اور موقع کے نشیب و فراز دکھائے۔ ابو موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ میں اپنا فرض ادا کر چکا ہوں، آگے تمہاری ہمت اور تقدیر ہے۔ اشرس نے اس کے بیان کی تصدیق کی۔ اور کہا کہ دو سو جانباز میرے ساتھ ہوں تو شہر فوراً فتح ہو جائے۔ ابو موسیٰ نے فوج کی طرف دیکھا۔ دو سو بہادروں نے بڑھ کر کہا کہ خدا کی راہ میں ہماری جان حاضر ہے۔ اشرس اسی تہہ خانے کی راہ شہر پناہ کے دروازے پر پہنچے اور پہرداروں کو نہہ تیغ کر کے اندر کی طرف سے دروازے کھول دیئے۔ ادھر ابو موسیٰ فوج کے ساتھ موقع پر موجود تھے۔ دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی تمام لشکر ٹوٹ پڑا اور شہر میں ہلچل پڑ گئی۔ ہرمزان نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لی۔ مسلمان قلعے کے نیچے پہنچے تو اس نے برج پر چڑھ کر کہا کہ میرے ترکش میں اب بھی سو تیر ہیں۔ اور جب تک اتنی ہی لاشیں یہاں نہ بچھ جائیں میں گرفتار نہیں ہو سکتا۔ تاہم میں اس شرط پر اترتا ہوں کہ تم مجھ کو مدینہ پہنچا دو۔ اور جو کچھ فیصلہ ہو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے ہو۔ ابو موسیٰ نے منظور کیا۔ اور حضرت انس کو مامور کیا کہ مدینہ تک اس کے ساتھ جائیں۔ ہزمزان بڑی شان و شوکت سے روانہ ہوا۔ بڑے بڑے رئیس اور خاندان کے تمام آدمی رکاب میں لئے مدینہ کے قریب پہنچ کر شاہانہ ٹھاٹھ سے آراستہ ہوا۔ تاج مرصع جو آذین کے لقب سے مشہور تھا، سر پر رکھا، دیبا کی قبا زیب تن کی۔ شاہان عجم کے طریقے کے موافق زیور پہنے۔ کمر سے مرصع تلوار لگائی۔ غرض شان و شوکت کی تصویر بن کر مدینے میں داخل ہوا اور لوگوں سے پوچھا کہ امیر المومنین کہاں ہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ جس شخص کے دبدبہ نے تمام دنیا میں غلغلہ ڈال رکھا ہے اس کا دربار بھی بڑے ساز و سامان کا ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ اور فرش خاک پر لیٹے ہوئے تھے۔ ہرمزان مسجد میں داخل ہوا تو سینکڑوں تماشائی ساتھ تھے۔ جو اس کے زرق برق لباس کو بار بار دیکھتے تھے اور تعجب کرتے تھے۔ لوگوں کی آہٹ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ کھلی تو عجمی شان و شوکت کا مرقع سامنے تھا۔ اوپر سے نیچے تک دیکھا اور حاضرین کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ " یہ دنیائے دوں کی دلفریبیاں ہیں" اس کے بعد ہرمزان کی طرف مخاطب ہوئے۔ اس وقت تک مترجم نہیں آیا تھا۔ مغیرہ بن شعبہ کچھ کچھ فارسی سے آشنا تھے ، اس لئے انہوں نے ترجمانی کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے وطن پوچھا۔ مغیرہ وطن کی فارسی نہیں جانتے تھے اس لیے کہا کہ " ازکدام ارضی"؟ پھر اور باتیں شروع ہوئیں۔ قادسیہ کے بعد ہرمزان نے کئی دفعہ سعد سے صلح کی تھی۔ اور ہمیشہ اقرار سے پھر جاتا تھا۔ شوستر کے معرکے میں دو بڑے مسلمان افسر اس کے ہاتھ سے مارے گئے۔ (ان واقعات کو طبری نے نہایت تفصیل سے لکھا ہے۔ ) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان باتوں کا اس قدر رنج تھا کہ انہوں نے ہرمزان کے قتل کا پورا ارادہ کر لیا تھا۔ تا ہم اتمام حجت کے طور پر عرض معروض کی اجازت دی۔ اس نے کہا عمر! جب تک خدا ہمارے ساتھ تھا تم ہمارے غلام