الفاروق مکمل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابو موسیٰ نے مہابر کے بھائی ربیع کو یہاں چھوڑا اور خود سوس کو روانہ ہوئے۔ ربیع نے مناذر کو فتح کر لیا۔ اور ابو موسیٰ نے سوس کا محاصرہ کر کے ہر طرف سے رسد بند کر دی۔ قلعہ میں کھانے پینے کا سامان ختم ہو چکا تھا۔ مجبوراً رئیس شہر نے صلح کی درخواست کی کہ اس کے خاندان کے سو آدمی زندہ چھوڑ دیئے جائیں۔ ابو موسیٰ نے منظور کی۔ رئیس ایک ایک آدمی کو نامزد کرتا تھا اور اس کو امن دے دیا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے شمار میں رئیس نے خود اپنا نام نہیں لیا تھا۔ چنانچہ جب سو کی تعداد پوری ہو گئی تو ابو موسیٰ اشعری نے رئیس کو جو شمار سے باہر تھا قتل کرا دیا۔ سوس کے بعد اہواز کا محاصرہ ہوا۔ اور آٹھ لاکھ سالانہ پر صلح ہو گئی۔ یزدگرد اس وقت قم میں مقیم تھا۔ اور خاندان شاہی کے تمام ارکان ساتھ تھے۔ ابو موسیٰ کی دست درازیوں کی خبریں اس کو برابر پہنچتی تھیں۔ ہرمزان نے جو شیرویہ کا ماموں اور بڑی قوت کا سردار تھا یزدگرد کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اگر اہواز و فارش میری حکومت میں دے دیئے جائیں تو عرب کے سیلاب کو آگے بڑھے سے روک دوں۔ یزدگرد نے اسی وقت فرمان حکومت عطا کر کے ایک جمعیت عظیم ساتھ دی۔ خوزستان کا صدر مقام شوستر تھا وہاں شاہی عمارات اور فوجی چھاؤنیاں تھیں۔ ہرمزان نے وہاں پہنچ کر قلعہ کی مرمت کرائی اور خندق اور برجوں سے مستحکم کیا۔ اس کے ساتھ ہر طرف نقیب اور ہرکارے دوڑا دیئے کہ لوگوں کو جوش دلا کر جنگ کے لیے آمادہ کریں۔ اس تدبیر سے قومی جوش جو افسردہ ہو گیا تھا، پھر تازہ ہو گیا اور چند روز میں ایک جمعیت عظیم فراہم ہو گئی۔ ابو موسیٰ نے دو بار خلافت کو نامہ لکھا اور مدد کی درخواست کی۔ وہاں سے عمار بن یاسر کے نام جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے حکم آیا کی نعمان بن مقرن کو ہزار آدمی کے ساتھ مدد کو بھیجیں۔ لیکن غنیم نے جو ساز و سامان کیا تھا۔ ابو موسیٰ نے دوبارہ لکھا، جس کے جوات میں عمار کو حکم پہنچا کہ آدھی فوج کو عبد اللہ بن مسعود کے ساتھ کوفہ میں چھوڑ دو اور باقی فوج لے کر خود ابو موسیٰ کے مدد کو جاؤ۔ ادھر جریر بجلی ایک بڑی فوج لے کر جلولاء پہنچا۔ ابو موسیٰ نے اس ساز و سامان سے شوستر کا رخ کیا۔ اور شہر کے قریب پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ ہرمزان کثرت فوج کے بل پر خود شہر سے نکل کر حملہ آور ہوا۔ ابوموسیٰ نے بڑی ترتیب سے صف آرائی کی۔ میمنہ براء بن مالک کو دیا (یہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی) کے بھائی تھے۔ میسرا پر براء بن عازب انصاری کو مقرر کیا۔ سواروں کا رسالہ حضرت انس کی رکاب میں تھا۔ دونوں فوجیں خوب جی توڑ کر لڑیں، براء بن مالک مارتے دھاڑتے شہر پناہ کے پھاٹک تک پہنچ گئے ، ادھر ہرمزان پردچو نہایت بہادری کے ساتھ فوج کو لڑا رہا تھا۔ عین پھاٹک پر دونوں کا سامنا ہوا اور مارے گئے۔ ساتھ ہی محراۃ بن ثور نے جو محنہ کو لڑا رہے تھے ، بڑھ کر وار کیا لیکن ہزمزان نے ان کا بھی کام تمام کر دیا۔ تاہم میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ عجمی ایک ہزار مقتول ہوئے اور چھ سو زندہ گرفتار ہوئے۔ ہرمزان نے قلعہ بند ہو کر لڑائی جاری رکھی۔ ایک دن شہر کا ایک آدمی چھپ کر ابو موسیٰ کے پاس آیا۔ اور کہا اگر میرے جان و مال کو امن دیا جائے تو میں شہر پر قبضہ کرا دوں گا۔ ابو موسیٰ نے منظور کیا۔ اس نے ایک عرب کو جس کا نام اشرس تھا ساتھ لیا۔ اور نہر وجل سے جو دجلہ کی ایک شاخ ہے ، اور شوستر کے نیچے بہتی ہے ، پار اتر کر ایک تہہ خانے کی راہ میں داخل ہوا۔ اور اشرس کے منہ پر چادر ڈال کر کہا کہ نوکر