دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
اسی طرح کھانے میں بھی طبیب سے یہ نہیں پوچھا جاتا ،کہ حکیم جی کھانے کے شرائط توبتلادو، اور یہ بھی تو سمجھا دو کہ کس وقت کھانا چھوڑ دیا جائے؟ کیوں کہ یہاں بھی کھانے کو ضروری اور نہ کھانے کو عارضی سمجھاجاتا ہے اسی طرح رمضان میں جولوگ روزہ رکھتے ہیں ، وہ کبھی پہلے یہ نہیں پوچھتے کہ مولوی صاحب روزہ کن کن وجوہ سے ساقط ہوجاتا ہے ؟ بلکہ اگر کوئی کبھی ایسا سوال کرے تو اس کے بارے میں عام طور پر یہ بدگمانی ہوتی ہے کہ شاید روزہ نہ رکھنے کے ارادے ہیں ۔ صاحبو! آپ کو چاہئے تھا کہ امر بالمعروف شروع کرتے پھر کسی وقت کسی باوجاہت آدمی کو خلاف شرع وضع پر نصیحت کرنے یا کافر کو تبلیغ اسلام کرنے میں گاڑی اٹکتی ،اس وقت مولوی صاحب سے پوچھتے کہ اس موقع پر کیا کروں ۔یہ کیا کہ آپ نہ حاکم کو امر بالمعروف کریں ، نہ محکوم کو نہ مسلم کو نہ کافر کو ، نہ بیوی کو ، نہ اولاد کو، اور پہلے ہی سے لگے عذر کا حکم دریافت کرنے۔ شاید آپ یہ کہیں کہ نماز روزہ میں توعذر کم پیش آتے ہیں اور امر بالمعروف میں تو اکثر پیش آتے رہتے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ یہ خیال غلط ہے ، اپنے گھروالوں کو امر بالمعروف کرنے میں کون سا عذر مانع ہے ؟بیوی نے نماز نہ پڑھی تھی اس کو نصیحت کرنے میں کیا خوف تھا؟ کیا وہ آپ کو مار ڈالے گی ؟یا لڑکا نماز نہیں پڑھتا تو وہ آپ کا کیا کرلے گا ؟۔ (التواصی بالحق:ص ۱۶۶) سچی بات تو یہ ہے کہ شرائط وآداب کا حقیقی طالب بھی وہی ہوگا جس نے پکاارادہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کرلیا ہو اس کو البتہ حق ہے شرائط وضوابط پوچھنے کا ۔وہ اگر آداب واعذار معلوم کرے تو اس کو سب کچھ بتلادیا جائے گا ،باقی موجودہ حالت میں جب کہ اس کی طرف توجہ اورالتفات ہی نہیں اس حالت میں آپ کو اعذار وشرائط پوچھنے اور سمجھنے کا بھی کچھ حق نہیں ، جو شخص کام کا ارادہ ہی نہ کرے اس کو نہ شرائط وضوابط بتلائے جائیں گے اور نہ ہی اس کو آداب واعذار پوچھنے کا حق ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تو شرائط واعذار اس لئے تلاش کرے گا ، تاکہ امر بالمعروف کرنا نہ پڑے بلکہ کسی طرح اس سے چھٹکارا مل جائے ۔جب اعذار معلوم