دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے واقعہ میں جولوگوں کے بدنام کرنے کی وجہ سے نکاح ترک نہیں کیا گیا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ زید بن حارث حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنّٰی تھے اور اس زمانہ میں عوام الناس متبنّٰی کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو ناجائز اور حرام سمجھتے تھے۔ توعوام کے اس فاسد عقیدہ کی اصلاح کے لئے اس وقت صرف تبلیغ قولی (زبان سے کہہ دینا) کافی نہ تھی ۔بلکہ ضرورت تھی کہ تبلیغ فعلی کی جائے اور نکاح کرنا تبلیغ فعلی تھی۔اور تبلیغ دین میں واجب ہے ۔ لہٰذا یہ نکاح کرنا دین میں مقصود تھا۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں ملامت کی پرواہ نہیں کی ۔ بخلاف ادخال حطیم فی البیت کے کہ حطیم کا کعبہ کے اندر داخل کرنا کوئی شرعی مقصود بالذات نہیں ۔ اور نہ ہی دین میں کوئی ضروری فعل تھا بلکہ ایک پسندیدہ فعل تھا ۔ جس پر کوئی ضروری مقصود بھی موقوف نہ تھا ۔اس کے داخل نہ ہونے سے کون سامقصود شرعی فوت ہوگیا ۔ خلاصہ یہ کہ مقاصد شرعیہ میں توبدنامی کاتو کچھ خیال نہ کیا جائے اور غیر مقاصد میں بدنامی سے بچنا ہی مناسب اور سنت کے موافق ہے ۔(فقہ حنفی کے اصول وضوابط بحوالہ تھانوی) اس کی دوسری نظیر دیکھئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دی تولوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنا بدنام کیا ۔مگر کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بدنام کرنے کی وجہ سے توحید کی دعوت ترک کردی ؟ ایک تیسری نظیر معراج کا واقعہ ہے کہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا نے آپ کی چادر مبارک کا گوشہ پکڑ لیا اور عرض کیا ۔کہ یا رسول اللہ آپ لوگوں سے یہ قصہ (معراج) نہ کہئے ورنہ لوگ آپ کو جھوٹا کہیں گے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ہانی کے مشورہ پر عمل نہ کیا ۔کیوں کہ معراج کے واقعہ کا اظہار کرنا دین میں مقصود تھا اور جو چیز دین میں مقصود ہو اس کو ملامت کے خوف سے ترک نہیں کیا جاسکتا۔ (الافاضات الیومیہ نہم جزاوّل :ص ۴۸؍ج۹، التبلیغ:ص ۱۱تا۱۵؍ج۲۳)