دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
۔اگر میں نے کعبہ کو منہدم کیا تو ان کو یہ خیال پیدا ہوگا ۔کہ یہ کیسے نبی ہیں جو کعبہ کو منہدم کرکے اس کی بے حرمتی کرتے ہیں ۔تو ان کے اسلام میں ضعف ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے مبارک کو باقی رکھا ۔اور اس فعل کی جو کہ ملامت کا ذریعہ تھی ۔ اس کے ارتکاب کی اجازت نہیں دی ۔ دوسرا واقعہ جہاں مخلوق کی ملامت کی پرواہ نہیں کی گئی ۔وہ واقعہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کا ہے ،جو خدا کے کلام اللہ میں مذکور ہے حضرت زید بن حارثہ نے ان کو طلاق دے دی ۔تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال ہوا کہ زینب اور ان کے اولیاء کی دلجوئی کی اب صرف یہی ایک صورت ہے کہ میں ان سے نکاح کرلوں ۔ مگر آپ اس خیال سے رکتے تھے کہ زید بن حارثہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متنبی یعنی منہ بولے بیٹے تھے ۔ متنبی کو اپنی اولاد کی طرح سمجھا جاتا تھا ۔ اگر میں نے زینب سے نکاح کرلیا تو جہلاء مشرکین اور منافقین لعن طعن کریں گے کہ بہو سے نکاح کرلیا ۔اور طعن کی وجہ سے بہت سے لوگ اسلام سے رُک جائیں گے ۔تودیکھئے زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے میں بھی اس مفسدہ کا احتمال تھا جس کا حطیم کے قصہ میں احتمال تھا، مگر حق تعالیٰ نے یہاں مفسدہ کی پرواہ نہیں کی ،اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ حضرت زینب سے نکاح کرلیں ۔اور بدنامی ولعن طعن کی پرواہ نہ کریں ۔ دونوں واقعوں سے معلوم ہوا کہ ہر مفسدہ قابل اعتبار نہیں ۔ اور ہر مصلحت حاصل کرنے کے قابل نہیں ۔ دونوں میں بڑا فرق ہے جس کی وجہ سے ایک میں ملامت کے خوف کی رعایت کی گئی۔ اور ایک میں نہیں کی گئی … وہ یہ کہ کتاب وسنت میں نظر رکھنے سے یہ قاعدہ مستنبط ہوتا ہے کہ وہ کام جو لوگوں کے نزدیک قابل مذمت ہے اگر واجب یا دین میں مقصود ہوتب تو بدنامی کے خوف سے اس کو ترک نہ کیا جائے گا ۔ اور اگر وہ فعل نہ تو واجب ہو اور نہ دین میں مقصود ہو کہ اس کے ترک کرنے میں کوئی حرج ہوتو اس کو نہ کیا جائے گا ۔