دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
۔انفرادی طورپر ہر مسلمان ایک دوسرے کو نصیحت کرسکتا ہے ۔ (۳) اسی طرح خطاب بالمنصوص علماء کے ساتھ خاص نہیں (یعنی جو مسائل واحکام شریعت میں صاف صاف مذکور ہیں ان کی تبلیغ علماء کے ساتھ خاص نہیں ہر شخص کو کرنا چاہئے، ہر شخص بآواز بلند کہہ سکتا ہے کہ ایمان لانا فرض ہے ۔ نماز ، روزہ، اور زکوٰۃ فرض ہے۔ اورامور اجتہاد یہ (فقہ کے باریک مسائل) سے خطاب کرنا علماء کے ساتھ خاص ہے۔ عوام اس میں غلطی کریں گے ۔ عالم کو اوّل تو جزئیات بہت یاد ہوں گے وہ اس میں غلطی نہ کرے گا ۔اور اگر جزئیات نہ بھی یاد ہوئے تو علم کی شان کے اعتبار سے اس کو ’’لاادری‘‘ (مجھے معلوم نہیں ) کہنے میں عار نہ ہوگا ۔ غرض ایسے امور کی تبلیغ کرنا جن کی حقیقت علماء ہی سمجھ سکتے ہیں یا خطاب عام کے ساتھ وعظ کہنا ، دین کے احکام بیان کرنا توعلماء کے ساتھ خاص ہے ۔اور انفرادی خطاب ایسے مسائل احکام کے ساتھ جو منصوص ومشہور ہیں علماء کے ساتھ خاص نہیں (ہر شخص کرسکتا ہے)۔ (التواصی بالحق :ص ۱۶۵،۱۶۳) (۴) ہر شخص پر واجب ہے کہ اپنے ماتحتوں کو بھلی باتوں کا حکم کرے اور خلاف شرع باتوں سے روکے ، اس میں عالم ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ہاں جہاں علم درکار ہے مثلاً کوئی اختلافی مسئلہ ہے یا ایسا کوئی مسئلہ ہے جس کے بہت سے شقوق (جہتیں ) ہیں اور ان شقوق کا احاطہ نہ کرسکا یا احاطہ تو کرلیا مگر درجہ نہیں معلوم کہ متفق علیہ مسئلہ ہے یا مختلف فیہ (فتویٰ کس قول پر ہے )تو ایسا مسئلہ بتلانا ہر شخص کے لئے جائز نہیں یہ علماء کے بتلانے کا کام ہے ۔ پس تبلیغ خاص کے لئے تو مسئلہ کی حقیقت کا پورے طور سے معلوم ہونا اور قدرت ہونا شرط ہے ۔ اور تبلیغ عام یعنی وعظ کہنا یہ علماء کا کام ہے خواہ درسیات پڑھ کر عالم ہوا ہو یا کسی عالم