دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
تھایا نہیں ؟ میں بتلاچکا ہوں کہ تبلیغ صرف مولویوں کے ذمہ نہیں بلکہ ہرمسلمان کے ذمہ ہے ۔ البتہ تبلیغ عام بطور وعظ کے علماء کے ساتھ خاص ہے باقی تبلیغ خاص انفرادی طورپر ہر شخص کے ذمہ ہے ۔ اور تبلیغ عام جو علماء کے ساتھ خاص ہے تو اس میں بھی عام مسلمانوں کے ذمہ یہ کام ہے کہ وہ علماء کے لئے اس کے اسباب مہیا کریں ۔مثلاً چندہ کرکے سفر خرچ ان کو دیا جائے تاکہ جہاں تبلیغ کی ضرورت ہو، وہاں جائیں اور سفر خرچ لے کر ریل وغیرہ کے کرایہ سے بے فکر ہوجائیں ۔کیوں کہ علماء کے پاس تبلیغ کے لئے زبان تو ہے مگر کرایہ وغیرہ کے لئے روپیہ تو نہیں ہے ۔اور ان کے ذمہ یہ کام بھی نہیں ہے کہ وہ آپ سے بھیک مانگتے پھریں کہ ہم کو روپیہ دوتاکہ تبلیغ کے لئے سفر کریں ۔ یہ کام عام مسلمانوں کے ذمہ فرض ہے کہ وہ خود چندہ جمع کرکے علماء کو آگے کریں اور ان سے عرض کریں کہ یہ روپیہ ہے اور یہ کام ہے جس طرح آپ کہیں اس طرح کام شروع کیا جائے ۔(التواصی بالحق:ص ۱۹۲) ایک صاحب مجھ سے ملے اور کہنے لگے، ارے صاحب! یہ ساری خطاء مولویوں کی ہے کہ انہو ں نے ان لوگوں کی کبھی خبر نہ لی ۔ میں نے کہا کہ پہلے تو تمہاری خطاء ہے کہ تم نے سرمایہ جمع کرکے ان کو نہیں دیا۔ آخر مولوی کام کریں توبیچا رے کہاں سے کریں ۔اس میں سرمایہ ہی تو بلی کا میائوں ۔ لیکن عوام کے ساتھ اس میں تھوڑا سا قصور مبلغین کا ہے ۔وہ یہ کہ جہاں سرمایہ کا انتظام بھی ہوا ہے وہاں بے دریغ روپیہ اڑاڈالتے ہیں ۔مثلاً خود اپنے پیسے سے چاہے تھرڈ کلاس میں بھی سفر نہ کریں گے ۔ مگر چندہ کا پیسہ ایسا مفت کا ہے کہ اب سیکنڈ(اور فرسٹ کلاس) سے کم میں نہیں بیٹھ سکتے ۔