دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
ناگواری کیوں ہوتی ہے ۔آخر وہ اطباء(ڈاکٹر) کے نخرے بھی اٹھاتے ہیں اور ان کی سختی کو ہر طرح برداشت کرتے ہیں کیوں ؟ محض اس لئے کہ صحت مطلوب ہے اور مطلوب کو حاصل کرنے کے لئے سختی اور دشواری سب کچھ گوارہ ہواکرتی ہے ۔پھر کیا دین کی صحت آپ کو مطلوب نہیں ؟ اگر مطلوب ہے تو اطباء باطن (علماء مشائخ) کی سختی اور دشواری بھی ناگواری نہ ہونی چاہئے ۔ صاحبو! اگر کسی کی اشرفی (سونے کا پیسہ)کھوگئی ہو۔اور ایک آدمی کے پاس اس کا پتہ ملے اور تم اس سے مانگنے جائو ،اور وہ زور سے اس کو تم پر دے مارے کہ جالے جا ۔تو اس سختی کی وجہ سے اس اشرفی کو آپ یہ کہہ کر دوبارہ پھینک دیں گے کہ اس طرح دینے سے ہم نہیں لیں گے ؟ ۔پھر اگر کوئی اچھی بات بتلادے ۔گو سختی ہی سے کہتا ہو ۔اس پر آپ ناک منہ کیوں چڑھاتے ہیں ۔معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اشرفی تومطلوب ہے ،دین نہیں مطلوب۔ صاحبو! اگر آپ کسی حاکم کے پاس جائیں اور وہ بات چیت میں سختی کرے مگر فیصلہ اس کے موافق کردے تو تم اس کی تعریف کروگے یا شکایت؟ مشاہدہ ہے کہ اس صورت میں حاکم کی بہت تعریف کی جاتی ہے اور اس کی سختی میں حکمتیں بیان کی جاتی ہیں کہ حاکم نے ہمارے ساتھ ابتداء میں سختی کا برتائو اس لئے کیا ۔ تاکہ کوئی طرفداری کی رعایت کا وہم نہ ہو۔ اے اللہ ! ایک دنیا دار حاکم کے افعال میں تو حکمت ہو ، اور خادمان دین کے افعال میں حکمت نہ ہو۔یہ کیسی بے انصافی ہے ۔ پھر اگر کوئی پیر(مصلح مبلغ) تمہارے ساتھ سختی کرے مگر اس کے ہاتھ سے تمہارے کام بن جائے تو ہزار بار مبارک ہو۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے باپ اپنے بچے پر سختی کرتا ہے کہ یہاں نہ بیٹھوفلاں فلاں آدمیوں سے نہ ملو، یہ چیز نہ کھائو ، وقت پر پڑھنے جائو ۔اور وہ کبھی اس کے خلاف کرتا ہے تو بیٹے کو سزا دیتا ہے ۔مگر اس میں کوئی بھی باپ کو ظالم نہیں کہتا بلکہ اس سختی کو بیٹے کے حق میں شفقت