دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
غرض ہم لوگوں میں بڑی کوتاہی یہ ہے کہ ہمارے اندر خلوص نہیں ہے حالانکہ ہمارے بزرگوں نے جو کچھ بھی کامیابی حاصل کی ہے خلوص ہی کی بدولت حاصل کی ہے۔ لوگ بزرگ کی ریس کرتے ہیں کہ ان کی تو شہرت وعزت ہوتی ہے اور ہماری نہ شہرت ہے نہ کسی کے دل میں وقعت ہے نہ عزت ہے، ارے ہوکیسے، ان میں خلوص ہے اور تم اس سے دور ہو۔ خدا کی قسم اگر خلوص سے کام ہو ،توشہرت خود بخود ہوجائے ۔ (خدا کا نظام ہے کہ )جو مٹتا ہے وہ روشن ہوجاتا ہے اور جو شہرت چاہتا ہے اسے ذلت گھیر لیتی ہے ۔اور بزرگوں نے جو کام بھی کیا خلوص سے کیا۔اس لئے ان کے ہاتھوں کام بھی پورا ہوا اور شہرت اور نیک نامی بھی ہوئی مگر ان کو شہرت کا قصد تو کیا وسوسہ بھی نہیں ہوتا تھا ۔ اور ہم تو شروع ہی سے شہرت چاہتے ہیں ۔اس لئے وہ بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ ارے کیا شہرت کے طالب بنے ہو مقصود اصلی تو خدا کو راضی کرنا ہے وہ حاصل ہونا چاہئے ۔بس جو کام بھی کرو ، رضائے حق کو پیش نظر رکھ کر کرو۔(الاتمام لنعمۃ الاسلام:ص ۱۲۲) بخدا ہم کو نام ونمود نے خراب کررکھا ہے اسی لئے ہمارے اندر خلوص نہیں ۔ہمارے ہر کام میں اغراض فاسدہ بھری ہوئی ہیں ۔ہمارے پہلے بزرگ تو دنیا کے کام بھی دین کی وجہ سے کرتے تھے ۔اور اب دین کا کام بھی دنیا سے خالی نہیں ،ہرکام میں شہرت ،نمود(دکھلاوا) اور عزت کا خیال ہے ۔ جب ہم میں خلوص نہیں تو برکت بھی نہ ہوگی ۔ کام میں برکت توخلوص سے ہوتی ہے مگر آج کل نیت میں خلوص ہی نہیں ہوتا، بلکہ دین کا جو کام بھی کرتے ہیں اس میں دنیا کی پچ لگی ہوئی ہوتی ہے ۔اپنے گھر میں وعظ کہلواتے ہیں (اجتماع یا،جوڑ کرواتے ہیں )شہرت کے لئے تاکہ لوگ کہیں کہ فلاں صاحب کے یہاں وعظ ،ہواتھا۔ (بغیر خلوص کے جب کام ہوتا ہے تو ) شروع شروع میں ایک دفعہ تو خوب آب وتاب اور عزت وشہرت ہوجاتی ہے ۔ پھر یہ حالت ہوتی ہے کہ یا تو کوئی اس کا نام نہیں لیتا ، یا لیتا ہے تو دوگالی پہلے دیتا ہے اور دو آخر میں ،اور درمیان میں نام لیتا ہے ۔