دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
ہیں ،اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دیا : ’’فَاِنِ استَطَعتَ اَن تَبتَغِیَ نَفَقاً فِی الَارضِ ‘‘ (الآیہ) آیت کا حاصل یہ ہے کہ ہم تو ایسا معجزہ نہیں دکھلاتے ۔اگر آپ کا جی چاہتا ہے تو زمین میں سرنگ لگاکر یا آسمان میں سیڑھی لگاکر لے آئیے ۔ ہم بھی دیکھیں ، آپ کہاں سے لائیں گے ۔ کس قدر خشک اور مایوس کن جواب ہے ۔تو اس آیت سے معلوم ہوا کہ کام کرنے والے کو ثمرہ عاجلہ( یعنی فوری کامیابی) سے غمگین نہ ہونا چاہئے ۔اور اس کے عدم ترتب (یعنی کامیابی نہ ہونے )سے غمگین نہ ہونا چاہئے اور ایک طبعی غم ہوتا ہے اس میں تو آدمی معذور ہوتا ہے ، بلکہ ماجور (مستحق ثواب) ہوتا ہے ۔اور ایک غم میں مبالغہ ہوتا ہے ۔یعنی یہ سوچ سوچ کر غمگین ہونا اس کی اجازت نہیں ۔ میں ان دونوں کے جمع کرنے کا طریقہ بتلاتا ہوں ۔وہ یہ کہ (تبلیغی جدوجہد)سعی میں نیت توفقط خدا کی رضا مندی کی ہو ۔یہ نیت ہی نہ ہو کہ وہ مسلمان ہی ہو جائے ۔ہاں دعا کرتے رہیں کہ یا اللہ! اس کو مسلمان بنادیجئے اور اس کے دل کے اندر اپنا خوف پیدا کردیجئے دعاء تو یہ کرے۔ اور عمل وہ کرے کہ اپنے کام میں رضائے حق کو مدنظر رکھے ، اپنا کام صرف تبلیغ کو سمجھے ۔خواہ ثمرہ (کامیابی) مرتب ہو یا نہ ہو ۔وہ خدا کے اختیار میں ہے ذوق گواہی دیتا ہے کہ یہ طریقہ بالکل شافی کافی ہے ، اس سے تکلیف بھی نہ ہوگی ۔غم وملال بھی نہ ہوگا ۔ اور چونکہ دعاء میں عرض ومعروض ثمرہ ہی کے متعلق ہوگی تو اس میں یہ نیت بھی ایک درجہ میں ہوجائے گی کہ ثمرہ مرتب ہوجائے ۔ ثمرہ مرتب ہونے کے لئے بس اتنی نیت کافی ہے اس سے زیادہ مناسب نہیں ۔ اور نیت بھی اس طریقہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کی ہے توامید ہے کہ پوری ہوگی۔ قلوب ان کے ہاتھ میں ہیں انشاء اللہ وہ قلوب کو پھیر دیں گے ۔اور اگر اس دعاء کے بعد بھی