دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
(برا)بھی نہیں سمجھتے ۔ہم نے مانا کہ عقائد کا اچھا ہونا بڑی بات ہے اور یہ بھی اپنی جگہ پر قابل تعریف ہے ۔مگر سوال یہ ہے کہ اعمال کو غیر ضروری کیوں سمجھا جاتا ہے ۔اور ان میں کوتاہی کرنے کو نقص (کمی وعیب) کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ اگر آپ یہ کہیں کہ اعمال فرع (یعنی بمنزلہ شاخ کے) ہیں ۔تو میں کہتا ہوں کہ کیا فرع کے نقص سے شئی (اس چیز ) میں نقص نہیں آتا؟ دیکھئے آپ امرودکا ایک درخت لگائیں جس کا بیج الٰہ آباد سے عمدہ امرودوں کا بڑے اہتمام سے انتخاب کرکے منگایا گیا تھا ۔مگر آپ کے باغ میں آکر اس عمدہ بیج سے درخت توبہت بڑا لگ گیالیکن پھل ایک بھی نہ آیا ۔ توکیا اس صورت میں آپ اپنے دوستوں کے سامنے خوش ہوکر اس درخت کی یوں تعریف کریں گے کہ یہ بڑا قیمتی درخت ہے۔اس کا بیج بہت عمدہ الٰہ آباد سے آیا ہے۔ یا افسوس کے ساتھ یوں کہیں گے کہ اس کا بیج بڑے اہتمام سے منگایا گیا تھا ۔مگر افسوس اس نے پھل نہیں دیا اور اگر اتفاق سے پھل بھی آیا مگر الٰہ آباد جیسا شیریں نہ ہوا بلکہ معمولی امرودوں سے بھی بدتر نکلا ۔ تو اس صورت میں آپ ہرگز بیج کی تعریف کرکے اپنا جی خوش نہ کریں گے ۔بلکہ سخت رنج وافسوس کے ساتھ یہ کہیں گے کہ بڑی مشقت کے ساتھ میں نے الٰہ آباد سے عمدہ بیج منگایا تھا مگر ساری محنت ضائع ہوگئی پھل بالکل خراب نکلا ۔ میرا مقصود اس مثال سے یہ ہے کہ آپ دنیوی امر میں محض اصل کی عمدگی کو تعریف کے لئے کافی نہیں سمجھتے ، بلکہ اس کے ساتھ فرع کی عمدگی پر بھی نظر ہوتی ہے ۔ پھر دین کے معاملہ میں کیا وجہ ہے کہ صرف عقائد یعنی اصول کی عمدگی پر نظر کی جاتی ہے اور اسی کو تعریف کے لئے کافی سمجھتے ہیں اور اعمال کی عمدگی پر کیوں نہیں نظر جاتی ؟ اور اس کے نقص (یعنی اس میں کمی ہونے )سے افسوس کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اور اس افسوس کا اثر آپ میں کیوں نہیں ظاہر ہوتا ؟ دیکھئے! اگر ایک شخص کا چہرہ حسین ہے ،مگر ہاتھ پیر بھدّے ہیں یا انگلیاں مڑی ہوئی ہیں تو ہر چند کہ حسن (خوبصورتی )میں چہرہ ہی کا حسن اصل ہے ،مگر یہ نہیں کہ ہاتھ پیر کا اعتدال