دعوت و تبلیغ کے اصول و احکام ۔ تصحیح شدہ جدید ایڈیشن |
ww.alislahonlin |
|
مسلمان ہوگیا ہے ، یہاں کے چودھری لوگ ساتھ کھانا کھلانا تو دور کی بات ہے اس کے ہاتھ کی چھوئی چیز بھی قبول نہیں کرتے ،میرا وہاں پر جانا ایک جلسہ کی وجہ سے ہوا تھا اس جلسہ میں بڑے بڑے لوگ جمع تھے اور وہ نومسلم بھی تھا بعض لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اس موقع پر ان لوگوں کو سمجھا دوکہ ایسا بچائو اور پرہیز مسلمان ہوجانے کے بعد نہیں کرنا چاہئے ۔اس میں اس کی دل شکنی ہے میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ دل شکنی نہیں اس میں تو دین شکنی( یعنی دین برباد ہونے )کا بھی اندیشہ ہے ۔مگر میرے سمجھانے اور زبان سے کہہ دینے سے کیا کام چلے گا ۔یہ لوگ تو پرانی وضع (نئے فیشن اور پرانے عقائد) کے ہیں ۔(محض میرے کہنے کا ) کیا اثر قبول کریں گے ۔ میں نے کہا بہت اچھا……… ایک لوٹے میں پانی منگائو ، غرض کہ پانی آیا میں نے اس نومسلم سے کہا اس کی ٹونٹی سے منہ لگاکر پانی پیو،اس نے پیا۔اس کے ہاتھ سے لوٹا لے کر اس کا بچا ہوا جھوٹا پانی اسی طرح منہ لگاکر میں نے پیا۔پھر میں نے اس مجمع کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ تم لوگ بھی پیو، اس وقت سوائے مان لینے اور پی لینے کے کسی کو کوئی عذر نہیں ملا۔ سب نے طوعاً وکرہاً پیا۔ اس کے بعد میں نے ان لوگوں سے کہا کہ دیکھو اب اس نومسلم سے پرہیز نہ کرنا، کہنے لگے اب پرہیز کرنے کا ہمارا منہ ہی کیا رہا ، آپ نے تدبیر ہی ایسی اختیار کی کہ ہمارا سارا دھرم ہی لے لیا ، اب اطمینان رکھو اس کو تو ہم اپنے ساتھ کھلا بھی لیا کریں گے ۔ فرمایا مجھے یاد ہے ۔میں نے پانی پی تو لیا… مگر اندر سے جی رکتا تھا (اللہ معاف کرے) اوریہ بات اسی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کسی کا جھوٹا پانی یا کھانا مجھ سے نہیں کھایا جاتا کچھ اندر سے رکاوٹ ہوتی ہے اگر اس کا سبب تکبر ہے تو حق تعالیٰ معاف فرمائیں ، اور اگر اس کا سبب ضعف طبیعت ولطافت طبع ہے تو معذوری ہے ۔ (ملفوظات حکیم الامت جدید:ص ۲۶)